کانفرنس میں شرکت کے لیے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون استنبول پہنچ گئے ہیں۔ اُنھوں نے عالمی اُمور میں ترکی کے قائدانہ رول کی تعریف کی ہے۔
صومالیہ وہ ملک ہے جو گذشتہ دو عشروں سے زیادہ مدت کی خانہ جنگی سے تباہ وبرباد ہو چکا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون کے علاوہ علاقائی لیڈر، کاروباری شخصیتیں اور ان افریقی ملکوں کے سفیر جنھوں نے صومالیہ میں امن فوج کے لیے سپاہی فراہم کیے ہیں اس کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔
توقع ہے کہ اس کانفرنس میں تعمیرِ نو اورروزگار کے مواقع فراہم کرنے کےطریقے وضع کیے جائیں گے جن سے صومالیہ کی کمزور عبوری وفاقی حکومت کو تقویت ملے گی۔ ترکی کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان بورک ازرگرجن کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے صومالیہ کی مخصوص ضروریات پر تبادلہ خیال کے لیے اجتماع کا موقع فراہم کیا ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس طرح امن اور استحکام قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ اکیسویں صدی میں بین الاقوامی کمیونٹی کا کوئی ذمہ دار رکن صومالیہ کو نظر انداز نہیں کر سکتا‘‘۔
گذشتہ سال ترکی نے پانچ بحری جنگی جہاز اس بین الاقوامی فورس کے لیے دیے تھے جو بحری قزاقی کو کنٹرول کرنے کے لیے صومالیہ کے ساحل کا گشت کرتی ہے ۔ اگرچہ اس کانفرنس میں بحری قزاقی پر بھی بات چیت ہو گی لیکن ازرگرجن کہتے ہیں کہ اس اختتام ہفتہ کی سربراہ کانفرنس کا ایک زیادہ اہم مقصد ہے ’’یہ کانفرنس افریقہ کے بارے میں ہماری خارجہ پالیسی کے اقدامات کا حصہ ہے۔ ہم نے براعظم افریقہ کے معاملات میں اپنی دلچسیوں کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم نے حال ہی میں افریقہ میں پانچ نئے سفارت خانے کھولے ہیں اور اگلے سال ہم مزید سفارت خانے کھولیں گے‘‘۔
تاریخی اعتبار سے افریقہ کے ساتھ سلطنت عثمانیہ کے قریبی تعلقات تھے۔ مصر، لیبیا، الجزائر اور سوڈان مکمل یا جزوی طور سے سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے ۔
لیکن 1923 میں ترک ریپبلک قائم ہونے کے بعد، افریقہ اور ترکی کے درمیان رابطہ ختم ہو گیا۔ ترک وزارتِ خارجہ نے مسلسل اس بات پر زور دیا ہے کہ افریقہ کے ساتھ ترکی کے تعلق کی بنیاد بڑھتا ہوا تعاون ہے، نہ کہ نو آبادیاں قائم کرنے کی خواہش۔
افریقہ میں ترکی کی دلچسپی کا آغاز جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد شروع ہوا۔ ترکی نے 2005 کو افریقہ کا سال قرار دیا۔ گذشتہ اکتوبر میں ترکی کا ایک بڑے عاشا (Asya Bank) اسلامک کوآپریشن ڈیویلپمنٹ کے ساتھ مِل کر افریقہ کی مارکٹ میں داخل ہوا۔
اسلامک کوآپریشن ڈیویلپمنٹ کے سربراہ خالد محمد العبودی نے اسے تاریخی اہمیت کا سودا قرار دیا ’’اس اقدام کے ذریعے ہم افریقہ میں کارپوریشنوں کو پراجیکٹ فائننس، ٹریڈ فائننس اور مشاورتی خدمات کے ذریعے مدد فراہم کریں گے۔ ہم نیجر، سینیگال، گنی اور ماریطانیہ میں چار بنک شروع کر رہےہیں، اور ہم مغربی اوروسطی افریقہ میں بھی اپنے کام کو پھیلائیں گے‘‘۔
ترک صنعتکار اور ملک کی بزنس کنفیڈریشن کے سابق سربراہ عمر بیلاٹ کہتے ہیں کہ ترکی یورپی منڈیوں پر انحصار کم کرنے اور اپنی کاروباری سرگرمیوں میں تنوع پیدا کرنے کی جو کوشش کر رہا ہے اس میں افریقہ انتہائی اہم ہے’’ موجودہ حکومت کے تحت ترکی کی معیشت مشرقِ وسطٰی، خلیج کے ملکوں، افریقہ کے ملکوں خاص طور سے شمالی افریقہ کے ملکوں کےساتھ تعلقات بڑھا رہی ہے۔ ترکی کی معیشت اپنی خدمات اورمنڈیوں میں تنوع پیدا کر رہی ہے تا کہ یورپی یونین کی منڈیوں پر انحصار کم ہو جائے‘‘ ۔
عالمی اقتصادی بحران کی وجہ سے یورپی منڈیاں کساد بازاری کا شکار ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ ان حالات میں نئے تجارتی تعلقات قائم کرنا دانشمندی کی بات ہے۔ بعض ناقدین کہتے ہیں کہ ترکی اپنی توجہ یورپی یونین سے ہٹا رہا ہے کیوں کہ اس کی رکنیت کی کوشش پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی ہے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان ازگرجن اس دعوے کو مسترد کرتے ہیں ’’خارجہ پالیسی ایسا کھیل نہیں ہے جس میں نفع نقصان ہمیشہ برابر رہتا ہو۔ ہم افریقہ میں اپنی دلچسپیوں میں اضافہ کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ اپنا قریبی اتحاد برقرار رکھ سکتے ہیں اور یورپی یونین میں شمولیت کی کوششیں بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ یہ سب ترکی کی نئی توانا اور متحرک خارجہ پالیسی کا حصہ ہے‘‘۔
ترکی کا کہنا ہے کہ افریقہ کے ساتھ اس کا نیا رابطہ اس بات کی مثال ہے کہ ترکی خود کو توانا علاقائی طاقت بنا رہا ہے ۔ اوراس کے نتیجے میں تجارت میں جو اضافہ ہوگا اس سے یورپ کے لیے ترکی کی کشش میں اضافہ ہوگا۔