پاکستان کی سپریم کورٹ نے تین اپریل 2018 کو دوست کے ساتھ مل کر اپنے والدین اور بھائی کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار اسماء نواب سمیت تین افراد کو 20 سال بعد بری کرنے کا حکم دیا تھا۔
ان میں سے اسماء نواب کو سزائے موت جب کہ اس کے دیگر دو ساتھیوں کو عمر قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ ان ملزمان کو اس الزام سے بریت کم ثبوت ہونے کے باعث تو مل گئی۔ لیکن، جرم ثابت ہوئے بغیر بھی وہ ملکی قوانین کے مطابق دی گئی عمر قید کی سزا کی 80 فیصد معیاد جیل میں گزار چکے تھے۔
سینئر وکلا اکثر یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ عدالتوں میں کئی ایسے اور کیسز بھی ہیں جن میں ملزمان عمر قید کی سزا مکمل کرنے کے بعد بھی جیل میں ہی قید ہیں، جب کہ بعض مجرم قیدِ تاحیات کی سزا پانے کے باوجود 25 سال سے قبل ہی رہا ہو چکے ہیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں قیدِ تاحیات کے معاملے پر شکوک و شبہات دور کرنے اور اس کی تشریح کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ اس معاملے پر وفاق سمیت چاروں صوبوں سے قانونی رائے طلب کرتے ہوئے سماعت اکتوبر کے پہلے ہفتے میں مقرر کرنے کا حکم دیا ہے۔
جس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے یہ حکم دیا ہے اس میں بھی وکیل نے عدالت سے عمر قید کی سزا پانے والے مجرم کی باقی سزا معاف کرنے کے لیے نظر ثانی کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔
عدالت کے سامنے بنیادی نکتہ یہ ہے کہ وہ مجرم جنہیں عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے، کیا انہیں دی جانے والی سزا کا مطلب 25 سال لیا جائے یا وہ عمر بھر جیل میں ہی رہیں گے۔
قانون کے تحت پاکستان میں قیدِ تاحیات یا عمر قید کی سزا تعزیرات پاکستان یا پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 57 کے تحت 25 سال تصوّر کی جاتی ہے اور اس کا اطلاق مجرم کی گرفتاری کے دن سے شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن قانون میں دی گئی سزا میں کمی کے تحت عمومی طور عمر قید کا مجرم اس سے پہلے ہی رہا ہو جاتا ہے۔
ان میں عام طور پر جیل میں بہتر روّیہ، قومی و مذہبی تہوار، سرکاری چھٹیاں، سنگین جرائم میں ملوث نہ ہونے اور دورانِ قید اپنے فرائض ٹھیک طور پر انجام دینے پر حکومت کی جانب سے سزا میں کمی کے فوائد شامل ہیں۔
اس حوالے سے چاروں صوبوں کے جیل قوانین میں تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ مماثلت پائی جاتی ہے۔
اگر ملزم کو ایک ہی عدالت سے دو مختلف جرائم میں سزا دی جاتی ہے تو عدالت دونوں سزاؤں کو ایک ساتھ شروع کرنے کا حکم دیتی ہے۔ لیکن، ایک سے زائد عدالتوں سے ملنے والی سزا کو ہائی کورٹ یکجا کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
سپریم کورٹ کے وکیل جاوید احمد چھتاری کے مطابق، پاکستان میں عمر قید 1972 کی عدالتی اصلاحات سے قبل 20 سال تھی، جسے بعد میں 25 سال کر دیا گیا۔ پاکستان میں رائج جیل قوانین مجرموں کو ملنے والی معافی کی جہاں سہولیات دیتے ہیں۔ وہیں یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے کہ سزا میں عمومی یا خصوصی کمی کی یہ سہولت سزا کے ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، یعنی اگر کسی کو 25 سال یا قیدِ تاحیات کی سزا ملی ہے، تو اسے سزا میں زیادہ سے زیادہ معافی 10 سال کی مل سکتی ہے اور اسے تب بھی 15 سال جیل میں گزارنا ہوں گے۔
تین دہائیوں سے قانون کے پیشے سے منسلک جاوید چھتاری مزید کہتے ہیں کہ صدر مملکت اور صوبے میں وزیر اعلٰی کو قانون یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ایسے مجرموں کی سزاؤں میں مزید تخفیف کر سکتے ہیں۔ تاہم، عمر قید یا کسی اور سزا کو کم کرنے کا اختیار عدالت کو حاصل نہیں۔
ایڈوکیٹ جاوید احمد چھتاری کے مطابق، عدلیہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانون کی تشریح کرے، تاکہ اس میں پائے جانے والے شکوک و شبہات دور کیے جا سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جیل میں قید کی سزا کاٹنے والے پر انسانی نقطہ نگاہ سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے، کیونکہ اس فرد کی سزا سے اس کے خاندان کے دیگر لوگ بھی اذیت میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور مہذب معاشرے میں کسی ایک شخص کی سزا اس کے خاندان کو نہیں دی جا سکتی۔
قانونی ماہرین اس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ جہاں ریاست ایسے مجرموں کے خاندانوں کی مالی معاونت کرے وہیں اس پر قیدِ تاحیات کو طبعی عمر سے منسلک کرنے کی ضرورت ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق، اس سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی نوجوان 20 سال کی عمر میں کسی جرم میں عمر قید کی سزا پاتا ہے تو ملک میں پائے جانے والی اوسط عمر (65 سال) میں اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ اپنی زندگی ہی میں ایک بار پھر خاندان سے جڑ جائے گا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ادھیڑ عمر میں کسی شخص کو قیدِ تاحیات کی سزا ملنے کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ وہ اپنی بقیہ ساری عمر جیل ہی میں گزارے گا اور ایسے میں وہ عمر قید کی بجائے شاید سزائے موت ہی کی التجا کرے گا۔
انسانی حقوق کے کارکن اور قانونی ماہرین اس معاملے پر طبعی عمر کی مناسبت سے ایک فارمولا بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔
انسانی حقوق کی ممتاز کارکن اور ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان کی کونسل ممبر زہرا یوسف کا کہنا ہے کہ جہاں ملک میں سزائے موت کے قانون کا خاتمہ ضروری ہے، وہیں وہ اس خیال سے بھی اتفاق کرتی ہیں کہ پاکستان میں عمر قید پر پائے جانے والی کنفیوژن کو دور کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
زہرہ یوسف کے مطابق، اس سے بھی زیادہ ضرورت عدالتی اصلاحات اور پولیس کے تفتیشی نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنے کی ہے، جس کی وجہ سے کئی ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں ناقص تفتیش کے باعث بے گناہ افراد سالوں جیل کے اندر سڑتے رہے۔
زہرہ یوسف کے بقول، 25 سال تک کسی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لیکن، یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کوئی مجرم اگر کسی جرم میں سزا پاتا ہے، تو وہ سزا پانے کے بعد باہر آ کر وہی جرم دوبارہ نہ کرنے لگ جائے۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ کئی سال کی قید کے دوران جیل میں جرم کرنے والے شخص کے لیے اصلاحات کا پروگرام شروع کیا جائے، جو اسے ماضی میں ہونے والے جرم سے دور کرے اور آئندہ کے لیے اسے معاشرے کا کار آمد شہری بنائے۔
ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں اس وقت 10 ہزار سے زائد عمر قید کے قیدی ملک بھر کی جیلوں میں موجود ہیں۔
پاکستان میں قتل، اقدام قتل، ڈکیتی کے دوران فائرنگ کے علاوہ چند سال قبل ہی غیرت کے نام پر قتل پر بھی عمر قید کی سزا مقرر کی گئی ہے۔