پاکستان کے صوبے پنجاب کی نگران کابینہ میں کرکٹر وہاب ریاض کا نام دیکھ کر بعض افراد حیران ضرور ہوئے ہیں لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے قبل بھی کئی انٹرنیشنل کھلاڑی کھیل سے سیاست کے میدان میں قدم رکھ چکے ہیں۔
پنجاب کی نگراں حکومت کا حصہ بننے سے قبل وہاب ریاض بنگلہ دیش میں پریمئر لیگ کھیل رہے تھے اور 'کھلنا ٹائیگرز' کی نمائندگی کرتے ہوئے 12 وکٹوں کے ساتھ ٹاپ بالر تھے۔
آخری بار انہوں نے 2020 میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ سال 2011 میں بھارت کے خلاف ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں ان کی پانچ وکٹیں سب سے یادگار سمجھی جاتی ہیں۔
لیکن اب ان کا نام پنجاب کی نگراں کابینہ میں آیا ہے اور وہ صوبے کے وزیرِ کھیل ہوں گے۔وہاب ریاض سے پہلے بھی پاکستان، بھارت اور سری لنکا سمیت کئی ملکوں میں کرکٹرز ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست کی جانب گئے جن میں سابق وزیراعظم عمران خان کا نام سرِفہرست ہے جو ملک کے وزیراعظم بھی بنے۔
صرف کرکٹر زہی نہیں بلکہ کئی ممالک میں ہاکی ، باکسنگ اور باڈی بلڈنگ کے کھلاڑی ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست کا حصہ بنے۔ کئی اس نئی اننگز میں کامیاب ہوئے تو کئی کے حصے میں ناکامی آئی۔
وہ کرکٹرز جوکھیل کے میدان سے سیاست میں آئے
پاکستان میں کرکٹ اور سیاست کا میل کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار نے کرکٹ چھوڑنے کے بعد 1970 میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے سیاست میں قدم رکھا تھا جب کہ انہوں نے صوبائی الیکشن میں حصہ بھی لیا تھا۔
کچھ عرصے صوبائی حکومت کا حصہ رہنے کے بعد وہ واپس کرکٹ کی جانب آگئے اور بورڈ کے چیئرمین بھی مقرر ہوئے۔
مایہ ناز فاسٹ بالر سرفراز نوازنےبھی سیاست میں قدم رکھا اور 1985 کے غیر جماعتی الیکشن میں کامیابی حاصل کرکے پنجاب اسمبلی پہنچے۔ لیکن اس کے بعد وہ دوبارہ الیکشن میں کامیاب نہ ہوسکے۔ سرفراز نواز آگے جاکر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم)کا حصہ بھی بنے۔
پاکستان میں کرکٹ سے سیاست کے سفرمیں سب سے زیادہ کامیاب عمران خان رہے جو وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچے۔اس وقت وہ حزبِ اختلاف میں ضرور ہیں لیکن 2018 کے انتخابات میں ان کی جماعت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر ابھری تھی جس نے وفاق میں حکومت بنائی تھی۔
وہاب ریاض سے قبل ایک اور بائیں ہاتھ سےکھیلنےوالے کھلاڑی عامر سہیل نے 2011میں سیاست میں قدم رکھا تھا اور اس وقت بھی وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کےرکن ہیں۔ البتہ وہ ابھی تک الیکشن جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
پاکستان کی طرح بھارت میں بھی کئی کرکٹرز نے سیاست کا رخ کیا جس میں سر فہرست ٹائیگر میک کے نام سے پہنچانے جانے والے سابق کپتان منصور علی خان پٹودی ہیں۔
منصور علی خان پٹودی نے سن 1971اور 1991 کے الیکشن میں حصہ تو لیا لیکن ان کی کرکٹ کے میدان کی مقبولیت سیاست میں کام نہ آسکی۔
اس کے برعکس سابق بھارتی اوپننگ بلے باز چیتن چوہان اور 1983 کے ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے رکن کیرتی آزاددو دو بار پارلیمنٹ کے رکن بنے۔
اسی اور 90 کی دہائی میں بھارتی ٹیم کی نمائندگی کرنے والے نوجوت سنگھ سدھو کا سیاست میں کریئر اتار چڑھاؤ کا شکار رہا۔ وہ متعدد مرتبہ کبھی بھارتیہ جنتا پارٹی تو کبھی کبھی کانگریس کے ٹکٹ پرالیکشن جیتے۔ نوجوت سنگھ سدھو نے 2016 میں 'آواز پنجاب' کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بھی بنائی تھی جو زیادہ دن نہ چل سکی۔
سدھو کے سابق کپتان اور میچ فکسنگ کیس کی وجہ سے پابندی کا شکار ہونے والے محمد اظہرالدین نے کرکٹ کے بعد سیاست میں قدم رکھا اور 2009 کےالیکشن میں کامیابی حاصل کرکے بھارتی پارلیمنٹ کے رکن بنے۔
بھارت کی نمائندگی کرنے والے سابق بلے باز گوتم گمبھیر اور محمد کیف نے بھی کرکٹ چھوڑنے کے بعد اور سیاست کا رخ کیا۔ تاہم فاسٹ بالر سریسانتھ کے سیاست میں آنے کے فیصلے پر کئی لوگ حیران ہوئے یوں کہ 2013 میں انڈین پریمیئر لیگ میں اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی وجہ سے انہیں دو سال کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
کھیل سے سیاست میں آنے کی بات صرف پاکستان اور بھارت تک ہی محدود نہیں۔ سری لنکا کو 1996 کاورلڈ کپ جتوانے والے کپتان ارجنا راناٹنگا اور ماسٹر بلاسٹر سنتھ جے سوریا نے بھی عمران خان کی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست کا رخ کیااور اپنے اپنے ملک کی خدمت کی۔
ویسٹ انڈین لیجنڈ ویس ہال بھی کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد بارباڈوس کی ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کا حصہ بنے اور پہلے سینیٹ اور پھر ہاؤس آف اسمبلی کی رکنیت حاصل کی۔
کئی ہاکی کے ستارے بھی عوام کے نمائندے بنے
پاکستان اور بھارت میں کرکٹ کے بعد اگر کوئی دوسرا کھیل مقبو ل ہے تو وہ ہاکی ہے۔ پاکستان کو 1982 کے ورلڈ کپ میں کامیابی دلانے والے کپتان اختر رسول نے ایک نہیں کئی الیکشن میں حصہ لیااور کامیابی بھی حاصل کی۔
انہیں 80 اور 90 کی دہائی میں میاں نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا تاہم جب مسلم لیگ (ق) معرض وجود میں آئی تو انہوں نے اس میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد وہ پھر سے ہاکی میں پہلے بطور کوچ اور پھر بطور صدر پاکستان ہاکی فیڈریشن واپس آئے۔
قاسم ضیاء نے پاکستان کی ہاکی فیلڈ پر تو نمائندگی کی ہے لیکن وہ سیاست میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر کے عہدے تک پہنچے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں وہ پنجاب اسمبلی کے قائدِ حزب اختلاف بھی رہے تھے۔
سن 1975 میں بھارت کو پہلی اور آخری مرتبہ ورلڈ چیمپئن بنانے والے اسلم شیر خان نے بھی سیاست کا رخ کیا اور کانگریس کے یونین منسٹر رہے۔ جب کہ نوجوت سنگھ سدھو کے ساتھ سیاسی پارٹی آواز پنجاب بنانے والوں میں سابق ہاکی پلیئر پرگت سنگھ بھی شامل تھے۔
ان ہی کھلاڑیوں کی طرح بھارت کے پنلٹی کارنر اسپیشلسٹ اور سابق کپتان دلیپ ٹرکے بھی 2012 میں بھارتی پارلیمنٹ کے رکن بنے لیکن اس کے بعد وہ واپس اسپورٹس ایڈمنسٹریشن میں آگئے اوراس وقت وہ بھارتی ہاکی فیڈریشن کے صدر ہیں۔
نامور فٹ بالرز اور باکسر زبھی سیاست دان بنے
ویسے تو برازیل کو تین مرتبہ ورلڈ چیمپئن بنانے والے پیلے اور 1994 کا ورلڈ کپ جتوانے والے روماریونے بھی سیاست میں قدم رکھا اور کامیابی حاصل کی۔ لیکن لائبیریا کے جارج ویاہ نے سیاست میں خوب کامیابی سمیٹی۔
سن 1995 میں فیفا پلیئر آف دی ایئر قرار دیے جانے والے اور بیلن ڈی اور جیتنے والے واحد افریقی کھلاڑی نے ریٹائرمنٹ کے بعد لایئبیریا میں کانگریس فور ڈیموکریٹک چینج نامی پارٹی بنائی اور متعدد کوششوں کے بعد 2018 میں ملک کے صدر بنے۔
یوگینڈا کے سابق صدر اڈی امین بھی 50 کی دہائی میں اپنے ملک کے ٹاپ باکسر اور سوئمر تھے۔ لیکن ملک پر حکمرانی کرنےکی وجہ سے انہیں بطور اسپورٹس مین کم ہی یاد رکھا جاتا ہے۔
تاہم فلپائن کے مینی پیکوا اور یوکرین کے ویٹالی کلیچکو کو اپنے اپنے ممالک میں کامیاب سیاست دان سمجھا جاتا ہے۔ سابق عالمی چیمپئن پیکیو اپنے ملک میں سینیٹر کے عہدے پر فائض رہے جب کہ کلچکو 2014 میں دارالحکومت کیو کے میئر کا الیکشن جیتے۔
ریسلنگ سے اداکاری کی طرف آنے والے آرنلڈشوارزنیگر اور جیسی وینچورا بھی سیاست کی طرف آئے۔ سابق مسٹر یونی ورنس آرنلڈ دو مرتبہ کیلی فورنیاکے گورنر بنے جب کہ وینچورا منیسوٹاکے گورنر کا الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
سات اولمپک گیمز میں بھارت کی نمائندگی کرنے والے کرنی سنگھ بہادر 25 سال تک لوک سبھا کے رکن رہے اور اسی دورا ن وہ دنیا بھر میں بطور شوٹر بھارت کی نمائندگی بھی کرتے رہے۔
سن 2004 میں بھارت کو اولمپگ گیمز میں سلور میڈل جتوانے والے راجیہ وردھان سنگھ راٹھور کو بھارت کا بہترین شوٹر سمجھا جاتا ہے۔ فوج اور کھیل کو خیرباد کہنے کے بعد وہ سیاست میں آگئے اور مسلسل تین الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے۔
پاکستانی سوئمر انور عزیز چوہدری جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد پہلے اولمپک گیمز میں ملک کی نمائندگی کی وہ بھی آگے جاکر سیاست دان بنے۔ جب کہ بھارتی سوئمر بُلا چوہدری بھی 2005میں کھیل کو خیرباد کہنے کے بعد سیاست میں آگئیں اور بنگال سے الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئیں۔
شطرنج کے نامور کھلاڑی گیری کیسپروو، برطانیہ کی جانب سے اولمپک ریکارڈ بنانے والے ٹریک ایتھلیٹ سباسچن کو اور بھارتی ٹریک اسٹار جیوترموئی سکدر بھی کھیل کو خیرباد کہنے کے بعدسیاست میں آئے۔
سابق امریکی فٹ بالرجیک کیمپ 1971 سے 1989 کے درمیان کانگریس کا حصہ رہے جب کہ سینیٹر بل بریڈلی اس امریکی باسکٹ بال ٹیم کا حصہ تھے جس نے 1964 کے اولمپک گیمز میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔
اسی طرح سات کامن ویلتھ گیمز گولڈ میڈل جیتنے والےاسٹیفن مارکس آگے جاکر نورو نامی ملک کے صدربنے لیکن کرپشن کی وجہ سےان کی حکومت 2011 میں ختم کردی گئی۔
طویل عرصے تک جاپان کے نائب وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے سابق وزیر اعظم تارو آسو بھی 1976 کےاولمپک گیمز میں جاپان کی شوٹنگ ٹیم کا حصہ تھے۔ جب کہ ان ہی کی ہم وطن سیکو ہاشی موٹو نے اسکیٹنگ کے کھیل میں اپنے ملک کی نمائندگی کی اور 1992 کے ونٹر اولمپکس میں میڈل بھی جیتا۔ جب کہ بعد میں بطور سیاست دان بھی اپنا لویا منوایا۔
سی شیلز کے معروف سوئمرجان پال ایڈم متعدد اولمپکس میں ملک کو کامیابی تو نہ دلاسکے لیکن متعدد وزارتوں کا چارج سنبھال کر بطور سیاست دان انہوں نے اپنے عوام کی خدمت کی۔