سری لنکا میں بودھ نسل سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے گروہ کے مسلم اقلیت پر حملوں کے بعد ملک میں بدستور ایمرجینسی نفاذ ہے۔ جب کہ امریکی سفارت خانے نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے مذہبی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ایمرجینسی کا خاتمہ کرے۔
صدر میتھری پالا سری سینا نے منگل کے روز ملک کی اکثریتی سنہالی آبادی کے ایک ہجوم کے ہاتھوں کاندی کے علاقے میں کئی مساجد، مسلمانوں کی دکانوں اور کاروباروں پر حملوں کے بعد ایمرجینسی نافذ کر دی تھی۔
ایک مسلم خاندان کی چھوٹی سی دکان کو آگ لگائے جانے کے بعد شعلوں میں گھر جانے والے ان کے نوجوان بیٹے کی جھلسی ہوئی نعش منگل کے روز آگ بجھانے والے عملے کو مل گئی۔
کاندی کے علاقے میں فساد اور افراتفری کی صورت حال ہفتے کے روز وہاں ایک سنہالی ٹرک ڈرائیور کے نوجوان مسلمانوں کے ایک گروپ کے ساتھ لڑائی میں زخمی ہونے کی خبر سامنے آنے کے بعد پیدا ہوئی۔ ٹرک ڈرائیور اگلے روز زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا تھا۔
سن 2009 میں 36 سالہ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد سے ، جب سرکاری فورسز نے اپنے لیے آزاد ملک کا مطالبہ کرنے والے نسلی گروپ تامل کی بغاوت کو کچل دیا تھا، سری لنکا بدستور مذہبی اور نسلی بنیادوں پر منقسم ہے۔
سخت گیر قوم پرست بودھ سنہالیوں نے مسلمانوں پر مقدس بودھ مقامات پر حملے کرنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے لوگوں پر دباؤ ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔
سری لنکا کے وزیر اعظم رانیل وکریمی سنگھا نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں نسل پرستی اور تشدد کی مذمت کی ہے۔
کولمبو میں امریکی سفارت خانے نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ تیزی سے فسادات کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کرے اور اقلیتوں کے مذہبی حقوق کو یقینی بنائے۔ سفارت خانے نے جلد از جلد ایمرجینسی اٹھانے پر بھی زور دیا ہے۔