سری لنکا کے صدر نے پیر کوسنگین معاشی صورتحال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی بحران کو حل کرنے کے سلسلے میں کابینہ میں17 نئے ارکان کا تقرر کیا ہے۔
یہ تقرریاں ایندھن اور خوراک کی قلت پر کئی ہفتوں سے جاری مظاہروں اور صدر گوتابایا راجا پاکسے اور ان کی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیے جانے کے بعد کی گئی ہیں۔
صدر کے بڑے بھائی وزیر اعظم مہندرا راجا پاکسے بدستور اپنے عہدے پر فائز رہیں گے، لیکن چند دیگر رشتہ داروں کو کابینہ سے الگ کردیا گیاہے۔ صدر کے اس اقدام کو اقتدار پر خاندان کی گرفت کو قائم رکھتے ہوئے مظاہرین کو مطمئن کرنے کی کوششوں کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
نوجوان انتظامیہ لانے کے مطالبے پر بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے بہت سے سینئرز کو کابینہ سے الگ کردیا گیا ہے لیکن اقتصادی بحالی میں مدد دینے کے لیے مالیاتی اور خارجہ امور کے وزرا کو ان کے عہدے پر برقرار رکھا گیا ہے۔
نئے وزرا سے خطاب میں صدر راجا پاکسے نے ایک موثر اور صاف ستھری حکومت کے لیے ان کی حمایت کی درخواست کی۔ راجا پاکسے نے کہا کہ آج زیادہ تر سرکاری ادارے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہیں اور اس کا ازالہ بہت ضروری ہے۔ انھوں نے بحران کو نظام میں تبدیلی لانے کا ایک موقع قرار دیا، جس کی عوام توقع کررہے ہیں۔
ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑنے اور وزرا کے گھروں پر دھاوا بولنے اور توڑپھوڑ کے بعد کابینہ نے تین اپریل کو استعفیٰ دیدیا تھا۔ گزشتہ دس روز سے ہزاروں مظاہرین صدر کے دفترکے داخلی راستے پر قابض ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں نے صدر کی جانب سے مخلوط حکومت تشکیل دینے کی دعوت مسترد کردی اور کہا ہے کہ جب تک راجا پاکسے اور ان کے بھائی اقتدار میں ہیں وہ حکومت میں شامل نہیں ہوں گے، حالانکہ یہ اپوزیشن جماعتیں پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
سری لنکا دیوالیہ ہونے کو ہے۔ اس کے کل25 ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں میں سے انھیں تقریباً سات ارب ڈالر اس سال ادا کرنا ہیں۔ زرمبادلہ کی شدید قلت کے باعث درآمدی سامان خریدنے کے لیے رقم میسر نہیں ہے۔
لوگ کئی مہینوں سے خوراک، کھانا پکانے کی گیس، ایندھن اور ادویات جیسی ضروری اشیا کی قلت برداشت کررہے ہیں اور بہت محدود پیمانے پر دسیتاب اشیا کی خریداری کے لیے بھی انھیں گھنٹوں لائن میں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔
گزشتہ ہفتے حکومت نے کہا تھا کہ وہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی روک رہی ہے اور بین الااقوامی مالیاتی فنڈ سے بات چیت کرے گی۔ سری لنکا کے وزیر خزانہ علی صابری اورحکام اتوار کو آئی ایم ایف سے بات چیت کے لیے واشنگٹن روانہ ہوگئے ہیں، جہاں اس ہفتے آئی ایف ایم اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس منعقد ہورہے ہیں۔
(خبر میں مواد خبررساں ادارے اے پی سے لیا گیا ہے)