یوسف جمیل
محمد افضل گورو کو دلی کی تہاڑ جیل میں چار سال پہلے آج ہی کے دِن یعنی 9 فروری 2013 کو پھانسی دی گئی تھی۔ جس کے بعد اُن کے جسدِ خاکی کو جیل کے احاطے ہی میں سپر د خاک کیا گیا-
کشمیر میں اُن کے اہلِ خانہ کا مُطالبہ ہے کہ باقیات کو اُنہیں لوٹایا جائے تاکہ آبائی وطن میں ان کی مناسب تدفین کی جا سکے۔ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتیں اس مانگ کی تائید کرتی ہیں۔
سرینگر کی عید گاہ مزارِ شہداؑ میں کھودی گئی دو قبریں کشمیری قوم پرست لیڈر محمد مقبول بٹ اور افضل گورو کی باقیات کے لئے خالی رکھی گئی ہیں۔
مقبول بٹ کو بھی تہاڑ جیل میں 33 برس پہلے تختہء دار پر لٹکایا گیا تھا اور وہیں اُنہیں سپردِ خاک کیا گیا۔ اُن پر کشمیر میں 1960 کی دہائی کے وسط میں ایک بھارتی انٹیلی جینس افسر امر چند کو قتل کرنے کے مقدمے میں مجرم ٹہرایا گیا تھا۔
جمعرات کو أفضل گورو کی برسی پر مُسلم اکثریتی وادیء کشمیر میں عام ہڑتال کی گئی جس کے لئے اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں نے کی تھی۔ جبکہ گرمائی دارالحکومت سرینگر کےپرانے شہر کے ساتھ ساتھ وادیء کشمیر کے بعض دوسرے حساس علاقوں میں سیکیورٹی کے لیے بھاری تعداد میں پولیس اور وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے دستوں کو تعینات کیا گیا تھا۔
شمال مغربی شہر سوپور کے مضافات میں واقع دوآب گاہ گاؤں میں أفضل گورو کے گھر پر تعزیتی مجالس کے انعقاد کا سلسلہ دن بھر جاری رہا جس میں مقررین نے اُن کی باقیات کو لوٹانے کا مطالبہ دہرایا۔
تافضل گورو کے بیٹے غالب نے جو اُن کی واحد اولاد ہے، آزادی پسند قیادت پر اس حوالے سے اُنہیں مایوس کرنے کا إلزام لگایا۔ بعد دوپہر سوپور میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔
بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں پولیس کے سربراہ ایس پی وید نے بتایا کہ صوبے میں کہیں بھی کرفیو نافذ نہیں تھا بلکہ سرینگر کے بعض حساس علاقوں میں ر اُن کے بقول معمولی حفاظتی پابندیاں لگائی گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ دفعہ 144 کے تحت 11 فروری کو بھی مقبول بٹ کی برسی پر نافذ رہیں گی جبکہ جمعے کو سرینگر کے تاریخی لال چوک اور قریب واقع اقوامِ متحدہ کے فوجی مُبصرین برائے بھارت وپاکستان کے گرمائی صدر دفاتر کے آس پاس کے علاقے کی ناکہ بندی کی جارہی ہے۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں کے ایک اتحاد نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ جمعہ کو لال چوک میں جمع ہوجائیں جہاں سے گپکار روڑ پر واقع فوجی مبصرین کے صدر دفاتر کی طرف مارچ کیا جائے گا اور مبصرین کو ایک یادداشت پیش کی جائے گی جس میں مقبول بٹ اور افضل گورو کی باقیات لوٹانے اور کشمیر کے دونوں حصوں میں رائے شماری کرانے کا مُطالبہ کیا جائے گا۔ مقبول بٹ اور افضل گورو کی برسیوں کے موقع پر پولیس نے بیشتر آزادی پسند لیڈروں اور سرکردہ کارکنوں کو اُن کے گھروں میں نظربند کردیا ہے یا پھرتھانوں میں بند۔ جبکہ وادیء کشمیر میں ریل سروسز کو بھی بند کیا گیا تھا۔