|
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے منگل کو سوال گیا گیا تھا کہ آیا امریکی سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر نے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کے ساتھ ملاقات میں زیرحراست عمران خان کی سیفٹی کو امریکہ کی اہم ترجیح کے طور پر بیان کرنے کے مبینہ موقف سے محکمہ خارجہ کو آگاہ کیا ہے؟ اس پر میتھیو ملر نے لا علمی کا اظہار کیا۔
امریکی آن لائن نیوز آوٹ لیٹ “دی انٹرسیپٹ” نے اپنی ایک خبر میں ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ "نیویارک کے ڈیموکریٹ سینیٹر چک شومر نے واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر کے ساتھ ایک حالیہ بات چیت میں مبینہ طور پر انتباہ کیا تھا کہ زیر حراست سابق وزیراعظم عمران خان کی سیفٹی امریکہ کی اہم ترجیح ہے۔"
دی انٹرسیپٹ، کی خبر کے مطابق سینیٹ میں اکثریتی رہنما سینیٹر شومر کی طرف سے گزشتہ ماہ کے آخر میں، پاکستان کو مبینہ انتباہ، پاکستانی نژاد امریکی شہریوں کی جانب سے اس معاملے پر آواز اٹھانے کے بعد سامنے آیا ہے، جنہیں خدشہ ہے کہ پاکستانی فوج سابق وزیر اعظم عمران خان کو قید میں نقصان پہنچا سکتی ہے۔
انٹرسیپٹ کی بیان کردہ اس مبینہ ملاقات کے بارے میں منگل کو امریکی محکمہ خارجہ کی پریس بریفنگ میں، انٹرسیپٹ کے ہی صحافی نے پوچھا کہ آیا چک شومر نے اپنی اس تشویش کے بارے میں محکمہ خارجہ کو بتایا تھا، یا یہ کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بھی اس خیال کو شئیر کرتا ہے کہ جیل میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم کی سیفٹی امریکہ کی ایک بلند ترجیح ہے؟
ترجمان میتھیو ملر نے اس ضمن میں کسی بات چیت سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “ ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں ہمارے اور سینیٹر شومر کے عملے کے درمیان کوئی بات چیت ہوئی ہو۔ لیکن میں اس ملاقات سے واقف نہیں ہوں۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ، پاکستان سمیت دنیا کے ہر قیدی کے تخفظ کا احترام چاہتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا “ ہم پاکستان یا دنیا میں کہیں بھی ہر قیدی کے لیے تخفظ کی فراہمی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہر نظر بند شخص، ہر قیدی بنیادی انسانی حقوق اور قانون کے تحت تحفظ کا حقدار ہے۔ “
اس بارے میں وائس آف امریکہ کی جانب سے بھیجے گئے سوالات پر سینیٹر چک شومر یا ان کے عملے کی جانب سے منگل کی رات تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔
واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانہ نے بھی اس سلسلے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
پاکستان کے انتخابات پر امریکہ میں ردعمل
امریکہ میں بسنے والے پی ٹی آئی کے حامی، فروری کے صدارتی انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں کے خلاف واشنگٹن میں احتجاج کر چکے ہیں۔ مظاہرین انتحابات سے پہلے اور نتائج کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے عمران خان اور جماعت کے دیگر کارکنوں پر چلائے جانے والے مقدمات کی وجہ سیاسی سمجھتے ہیں۔
پاکستان کی حکومت اور فوج ماضی میں ان الزامات کی بارہا تردید کر چکی ہے۔
تاہم عالمی برادری اور امریکہ متعدد بار پاکستان میں صحافت اور سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سے متعلق بیس مارچ کو امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی میں ہونے والی ایک سماعت کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی ایشیا کے لیے سینئر سفارت کار ڈونلڈ لو نے کہا تھا “ اگر اسلام آباد انتحابات میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی مکمل تحقیقات نہیں کرتا تو امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔”
امریکہ کی جانب سے انتباہ کے بعد واشنگٹن کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا تھا کہ امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو کی وارننگ "پاکستان کی سیاسی صورت حال اور انتخابی قوانین کے بارے میں غلط فہمی کی عکاسی کرتی ہے"۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کو پارلیمان میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ہٹایا گیا تھا بعد ازاں انہیں مختلف مقدمات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
نو مئی 2023 کو القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے ملک بھر میں احتجاج کیا تھا جب کہ مختلف شہروں میں ہجوم نے فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا تھا۔
فورم