امریکہ کے صدر براک اوباما نے کانگریس پر زور دیا ہے کہ وہ ان کی حکومت کو مشرقِ وسطیٰ میں سرگرم شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دے۔
منگل کی شام کانگریس کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے سالانہ 'اسٹیٹ آف دی یونین' خطاب کرتے ہوئےامریکی صدر نے کہا کہ ان کا ملک اپنے قائدانہ کردار اور فوجی طاقت کے ذریعے عراق اور شام میں داعش کی پیش قدمی کامیابی سے روک رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ایک اور زمینی جنگ میں کودنے کے بجائے مشرقِ وسطیٰ میں داعش کا زور توڑنے اور اسے تباہ کرنے کے لیے ایک ایسا بین الاقوامی اتحاد قائم کیا ہے جس میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔
صدر اوباما نے کہا کہ ان کی انتظامیہ شام میں بھی حزبِ اختلاف کے معتدل گروہوں اور دنیا بھر میں پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف جدوجہد کرنے والے لوگوں کی مدد کررہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی ان کوششوں کے نتائج برآمد ہونے میں وقت لگے گا لیکن انہیں یقین ہے کہ یہ کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوں گی۔
خیال رہے کہ شام اور عراق میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکی فوجی آپریشن گزشتہ پانچ ماہ سے جاری ہے لیکن کانگریس نے تاحال اس کی باضابطہ منظوری نہیں دی ہے۔
صدر اوباما نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کانگریس دولتِ اسلامیہ کے خلاف امریکی فوجی کارروائی کی منظوری دے کر دنیا کو یہ پیغام دے کہ امریکہ شدت پسندی کے خلاف یکسو اور متحد ہے۔
کانگریس سے اپنے چھٹے سالانہ 'اسٹیٹ آف دی یونین' خطاب میں امریکی صدر نے امریکہ کی داخلی صورتِ حال، خارجہ پالیسی، امریکی معیشت اور اپنی صدارت کے باقی ماندہ دو برسوں میں اپنی حکومت کی ترجیحات سمیت کئی معاملات، مسائل، اہداف اور اپنی حکومت کی کامیابیوں کا ذکر کیا۔
ان کے خطاب کو سننے کے لیے 'کیپٹل ہِل'میں امریکی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کے ارکان کے علاوہ نائب صدر جو بائیڈن، خاتونِ اول مشیل اوباما، امریکی سپریم کورٹ کے جج، فوجی قیادت، کئی اہم شخصیات اور ملک کی مختلف آبادیوں، نسلوں اور طبقوں کے نمائندہ عام امریکی شہری بھی موجود تھے۔
اپنے خطاب میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ ذہانت کے ساتھ عالمی برادری میں اپنا قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے جس میں فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ سفارت کاری بھی اہم ہے۔
انہوں نے کہا کہ 11/9 کے بعد یہ پہلا 'اسٹیٹ آف دی یونین' ہے جب افغانستان میں امریکہ کا فوجی مشن مکمل ہوچکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی دو نسلوں نے خطرناک اور مہنگی جنگیں دیکھی ہیں اور 15 سال تک جاری رہنے والی ان محاذ آرائیوں نے امریکی معیشت کو متاثر کیا ہے۔
اپنے خطاب میں صدر نے کہا کہ افغان جنگ کے خاتمے کے باوجود امریکہ دنیا بھر میں دہشت گردوں کا تعاقب جاری رکھے گا۔
صدر اوباما نے ایک بار پھر واضح کیا کہ امریکہ پر دنیا میں جہاں سے بھی دہشت گرد حملوں کا خطرہ ہوگا وہاں واشنگٹن ازخود کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ دنیا بھر میں دہشت گردی کا سامنا کرنے والے لوگوں کے ساتھ ہے چاہے یہ دہشت گردی، ان کے بقول، پاکستان کے اسکول میں ہو یا فرانس کی سڑکوں پر۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکی معیشت کی بحالی کا وعدہ کیا تھا جس کی جانب کامیابی سے سفر جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکی نوجوانوں کو بہتر مستقبل اور روزگار دینے، ملازمین کی تنخواہوں اور سہولتوں میں اضافے اور مرد و خواتین ملازمین کو یکساں مواقع اور وسائل فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
اپنے خطاب میں صدر اوباما نے کہا کہ امریکہ نے ہر دور میں مشکل فیصلے کیے ہیں اور اب بھی داخلی اور خارجی محاذ پر درپیش حالات امریکی قیادت سے سخت فیصلوں کے متقاضی ہیں۔
امریکہ کی خارجہ پالیسی کا تذکرہ کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں عائد کرنے سے جوہری تنازع کے حل کے لیے جاری سفارت کاری کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں کے کشیدگی کے بعد اب امریکہ کو کیوبا کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنانا ہوں گے۔
صدر کا کہنا تھا کہ امریکہ کی براہِ راست تصادم سے گریز کی حکمتِ علمی کے نتیجے میں آج روس عالمی برادری میں تنہا رہ گیا ہے اور اس کی معیشت زوال کا شکار ہے جب کہ اس کے برعکس امریکہ اپنے اتحادیوں کے ہمراہ دنیا کی قیادت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'پینٹاگون' سمجھتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے ایک براہِ راست خطرہ بنتی جارہی ہیں، لہذا ماحولیات کے بارے میں پالیسی وضع کرتے ہوئے ہمیں یہ بات پیشِ نظر رکھنا ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کا عمل دنیا کے لیے قابلِ تقلید ہوتا ہے اور اسی لیے وہ ماحولیاتی مسائل کے بارے میں سخت اقدامات کرکے دنیا کے لیے مثال بنیں گے۔
انہوں نے مختلف عالمی مسائل پر دوسرے ملکوں کے ساتھ اتحاد بنانے اور مشترکہ حکمتِ عملی تشکیل دینے کی اپنی پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔
امریکی صدر نے ارکانِ کانگریس پر زور دیا کہ وہ امریکیوں کو ایک بہتر مستقبل فراہم کرنے میں ان کی حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔
یاد رہے کہ کانگریس کے دونوں ایوانوں میں صدر اوباما کی حریف جماعت ری پبلکن کو اکثریت حاصل ہے جس کے باعث 'وہائٹ ہاؤس' اور کانگریس میں تناؤ کی سی کیفیت ہے اور سیاسی تنازعات اور اختلافات کے باعث امورِ سرکار کی انجام دہی اور کئی اہم معاملات پر قانون سازی تاخیر کا شکار ہورہی ہے۔
اپنے خطاب میں صدر اوباما کا کہنا تھا کہ امریکہ کساد بازاری کے اثرات سے باہر آرہا ہے اور معیشت ترقی کر رہی ہے، خسارہ کم ہورہا ہے، صنعتوں میں تیزی نظر آرہی ہے اور توانائی کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کانگریس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب اس بات کا فیصلہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم آئندہ دہائیوں میں امریکہ کو کیا مستقبل دینا چاہتے ہیں؟
انہوں نے سوال کیا کہ کیا امریکی ایک ایسی معیشت کو قبول کرلیں گے جن میں چند افراد کو ترقی کے بیش بہا مواقع میسر ہوں؟ یا ایک ایسی معیشت کی تشکیل کی کوششیں جاری رکھیں گے جس میں ہر فرد کو بہتر آمدنی اور ترقی کے مواقع ملیں؟
صدر نےکہا کہ معاشی اشاریوں سے ظاہر ہے کہ وہ معاشی پالیسیاں بہتر نتائج دیتی ہیں جو متوسط طبقے کی فلاح و بہبود کو پیشِ نظر رکھ کے تشکیل دی جائیں۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ اگر سیاست بیچ میں نہ آئی تو ان پالیسیوں کے مثبت نتائج برآمد ہوتے رہیں گے۔
اپنےخطاب میں امریکی صدر نے کانگریس پرزور دیا کہ وہ سائبر حملوں کے بڑھتے ہوئے خطرات اور آن لائن معلومات کی چوری کے تدارک کے لیے بھی ضروری قانون سازی کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ کوئی دوسرا ملک اور ہیکر امریکی نیٹ ورکس کو بند کرنے، اس کے تجارتی راز چرانے اور امریکی شہریوں کی نجی معلومات چرانے کے قابل نہ رہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت سائبر حملوں اور خطرات کو بھی اتنی ہی اہمیت دے رہی ہے جتنی دہشت گردی سے مقابلے کو دی جارہی ہے۔ انہوں نے کانگریس پر اس ضمن میں قانون سازی کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر ضروری اقدامات نہ کیے گئے تو امریکی قوم اور معیشت خطرات کا شکار رہے گی۔