لندن —
سماجی رابطوں کی مقبول ترین ویب سائٹ، فیس بک کے ساتھ اربوں ڈالر کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد، موبائل اپلیکیشن ’واٹس ایپ‘ کے تخلیق کاروں کا نام بھی سلیکون ویلی کے ارب پتی افراد کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
گذشتہ شب فیس بک اور واٹس ایپ کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق، فیس بک نے واٹس ایپ کو 19 ارب ڈالر میں خرید لیا ہے۔ اسے فیس بک کی اب تک کی سب سے بڑی خریداری بتائی گئی ہے۔ اس سے قبل 2012 ءمیں فیس بک ایک بڑے سودے میں ’انسٹاگرام‘ کو خرید چکا ہے، جس کے لیے فیس بک نے ایک ارب ڈالر ادا کیے تھے۔
نوجوانوں میں مقبول فوری اور مفت پیغام رسانی کی مقبول اپلیکیشن، واٹس ایپ کی تخلیق سنہ2009 میں جین کوم اور برائن ایکٹن کے ہاتھوں سے ہوئی جنھوں نےکافی شاپس اور لمبی گھریلو نشستوں میں بیٹھ کر اپنے سادہ سے خیال کو عملی جامہ پہنایا اور آج دنیا بھر میں واٹس ایپ کے 45 کروڑ صارفین موجود ہیں۔ پانچ سال کی مختصر مدت میں کمپنی کی مالیت کا اندازہ تقریبا 6.8 ملین ڈالرز لگایا گیا ہے۔
برطانوی روزنامے ’میل آن لائن‘ کے مضمون کے مطابق، واٹس ایپ کے تخلیق کاروں کی جوڑی نے ارب پتی بننے تک کے سفر میں بہت سی ناکامیوں کا منہ دیکھا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب واٹس ایپ کے معاون تخلیق کار، برائن ایکٹن کو فیس بک اور ٹویٹر نے ملازمت دینے سے انکار کردیا تھا۔
اس سنہری کامیابی کے پیچھے واٹس ایپ کے بانی جین کوم کی انتھک محنت کی کہانی بھی چھپی ہے۔ یوکرائین کے ایک دیہات میں پیدا ہونے والے جین کوم نےغربت میں پرورش پائی ان کے گھر میں پانی اور بجلی کی سہولت نہیں تھی.
16 برس کی عمر میں کوم اپنے خاندان کے ہمراہ بےسروسامانی کی حالت میں کیلی فورنیا منتقل ہوئے اس وقت ان کی والدہ نے ان کے صندوق میں اسکول کی کتابیں اور کاپیاں بھر دیں تھیں، تاکہ انھیں نئے شہر میں پڑھائی کا خرچہ برداشت نہ کرنا پڑے۔ بہت عرصے تک ان کا خاندان فلاحی مرکز کی طرف سے دی جانے والی امداد (فوڈ اسٹامپ) پر گزارا کرتا رہا۔
37سالہ جین کوم نے اپنے ماضی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے فیس بک کے ساتھ تاریخی معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا یہ وہی فلاحی مرکز کی عمارت تھی جہاں انھیں فوڈ اسٹامپ کے لیے گھنٹوں انتطار میں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ عالمی شہرت کی حامل چیٹ ایپلیکیشن کا دفتر بھی اسی فلاحی مرکز کی عمارت سے چند بلاک کے فاصلے پر واقع ہے۔
بدھ کے روز واٹس ایپ کے بانیوں نےایکٹن اور کوم نے اسی عمارت کے باہر کھڑے ہوکر فیس بک کے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے۔
جین کوم نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ ہم مارک اور فیس بک کے ساتھ شراکت داری کے خیال پر بہت پرجوش ہیں اور اسے ایک اعزاز تصور کرتے ہیں۔ تقریبا پانچ برس قبل ہم نے ایک سادہ مقصد کے ساتھ واٹس ایپ کی تخلیق کی تھی اورآج فیس بک کے ساتھ ملکر ہم اپنی خدمات کو دنیا بھر میں پہنچانے کے سلسلے کو جاری رکھیں گے۔
گذشتہ رات فیس بک کے سی ای او مارک زیکربرگ نے فیس بک کے صفحے پر لکھا کہ انھیں یہ اعلان کرتے ہوئے بے حد خوشی محسوس ہورہی ہے کہ واٹس ایپ اور فیس بک کے درمیان ملکر کام کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ وہ واٹس ایپ کی خدمات کو انتہائی قابل قدر سمجھتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جین کوم سے ان کی دوستی بڑی پرانی ہے اور فیس بک بورڈز آف ڈائریکٹر میں ان کے شامل ہونے پر خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک واٹس ایپ ایک ارب لوگوں سے رابطے کا ذریعہ ہے اور اس معاہدے کے بعد واٹس ایپ اور فیس بک کے اشتراک سےدنیا کو وسیع اور مربوط بنانا ممکن ہو سکے گا۔
موبائل پیغام رسانی کی اس ایپلیکیشن کا ایک مفت ورژن عام استعمال کے لیے دستیاب ہے جبکہ کاروباری ورژن کے لیے صارفین سے ایک ڈالر سالانہ وصول کیا جاتا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے پاس روزانہ دس لاکھ نئے صارف رجسٹر ہو رہے ہیں۔ اس ایپ کے ذریعے ہر روز20 کروڑصارفین صوتی پیغامات بھیجتے ہیں اور ہر روز تقریبا 60 کروڑ تصاویر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ واٹس ایپ پر پیغام رسانی کا حجم تقریباً عالمی ٹیلی کام 'ایس ایم ایس' کے حجم کے برابر ہے۔
گذشتہ شب فیس بک اور واٹس ایپ کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق، فیس بک نے واٹس ایپ کو 19 ارب ڈالر میں خرید لیا ہے۔ اسے فیس بک کی اب تک کی سب سے بڑی خریداری بتائی گئی ہے۔ اس سے قبل 2012 ءمیں فیس بک ایک بڑے سودے میں ’انسٹاگرام‘ کو خرید چکا ہے، جس کے لیے فیس بک نے ایک ارب ڈالر ادا کیے تھے۔
نوجوانوں میں مقبول فوری اور مفت پیغام رسانی کی مقبول اپلیکیشن، واٹس ایپ کی تخلیق سنہ2009 میں جین کوم اور برائن ایکٹن کے ہاتھوں سے ہوئی جنھوں نےکافی شاپس اور لمبی گھریلو نشستوں میں بیٹھ کر اپنے سادہ سے خیال کو عملی جامہ پہنایا اور آج دنیا بھر میں واٹس ایپ کے 45 کروڑ صارفین موجود ہیں۔ پانچ سال کی مختصر مدت میں کمپنی کی مالیت کا اندازہ تقریبا 6.8 ملین ڈالرز لگایا گیا ہے۔
برطانوی روزنامے ’میل آن لائن‘ کے مضمون کے مطابق، واٹس ایپ کے تخلیق کاروں کی جوڑی نے ارب پتی بننے تک کے سفر میں بہت سی ناکامیوں کا منہ دیکھا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب واٹس ایپ کے معاون تخلیق کار، برائن ایکٹن کو فیس بک اور ٹویٹر نے ملازمت دینے سے انکار کردیا تھا۔
اس سنہری کامیابی کے پیچھے واٹس ایپ کے بانی جین کوم کی انتھک محنت کی کہانی بھی چھپی ہے۔ یوکرائین کے ایک دیہات میں پیدا ہونے والے جین کوم نےغربت میں پرورش پائی ان کے گھر میں پانی اور بجلی کی سہولت نہیں تھی.
16 برس کی عمر میں کوم اپنے خاندان کے ہمراہ بےسروسامانی کی حالت میں کیلی فورنیا منتقل ہوئے اس وقت ان کی والدہ نے ان کے صندوق میں اسکول کی کتابیں اور کاپیاں بھر دیں تھیں، تاکہ انھیں نئے شہر میں پڑھائی کا خرچہ برداشت نہ کرنا پڑے۔ بہت عرصے تک ان کا خاندان فلاحی مرکز کی طرف سے دی جانے والی امداد (فوڈ اسٹامپ) پر گزارا کرتا رہا۔
37سالہ جین کوم نے اپنے ماضی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے فیس بک کے ساتھ تاریخی معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے جس جگہ کا انتخاب کیا یہ وہی فلاحی مرکز کی عمارت تھی جہاں انھیں فوڈ اسٹامپ کے لیے گھنٹوں انتطار میں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ عالمی شہرت کی حامل چیٹ ایپلیکیشن کا دفتر بھی اسی فلاحی مرکز کی عمارت سے چند بلاک کے فاصلے پر واقع ہے۔
بدھ کے روز واٹس ایپ کے بانیوں نےایکٹن اور کوم نے اسی عمارت کے باہر کھڑے ہوکر فیس بک کے ساتھ معاہدے پر دستخط کئے۔
جین کوم نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ ہم مارک اور فیس بک کے ساتھ شراکت داری کے خیال پر بہت پرجوش ہیں اور اسے ایک اعزاز تصور کرتے ہیں۔ تقریبا پانچ برس قبل ہم نے ایک سادہ مقصد کے ساتھ واٹس ایپ کی تخلیق کی تھی اورآج فیس بک کے ساتھ ملکر ہم اپنی خدمات کو دنیا بھر میں پہنچانے کے سلسلے کو جاری رکھیں گے۔
گذشتہ رات فیس بک کے سی ای او مارک زیکربرگ نے فیس بک کے صفحے پر لکھا کہ انھیں یہ اعلان کرتے ہوئے بے حد خوشی محسوس ہورہی ہے کہ واٹس ایپ اور فیس بک کے درمیان ملکر کام کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے۔ وہ واٹس ایپ کی خدمات کو انتہائی قابل قدر سمجھتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جین کوم سے ان کی دوستی بڑی پرانی ہے اور فیس بک بورڈز آف ڈائریکٹر میں ان کے شامل ہونے پر خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک واٹس ایپ ایک ارب لوگوں سے رابطے کا ذریعہ ہے اور اس معاہدے کے بعد واٹس ایپ اور فیس بک کے اشتراک سےدنیا کو وسیع اور مربوط بنانا ممکن ہو سکے گا۔
موبائل پیغام رسانی کی اس ایپلیکیشن کا ایک مفت ورژن عام استعمال کے لیے دستیاب ہے جبکہ کاروباری ورژن کے لیے صارفین سے ایک ڈالر سالانہ وصول کیا جاتا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے پاس روزانہ دس لاکھ نئے صارف رجسٹر ہو رہے ہیں۔ اس ایپ کے ذریعے ہر روز20 کروڑصارفین صوتی پیغامات بھیجتے ہیں اور ہر روز تقریبا 60 کروڑ تصاویر اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ واٹس ایپ پر پیغام رسانی کا حجم تقریباً عالمی ٹیلی کام 'ایس ایم ایس' کے حجم کے برابر ہے۔