کراچی —
سقوطِ ڈھاکہ کو 42 برس بیت گئے۔ بنگلہ دیش وجود میں آیا، ہزاروں خاندان جو مغربی پاکستان میں تھے پاکستانی ہوگئے، جنہوں نے بنگلہ دیش کو اپنا وطن مان لیا وہیں کے ہو رہے۔ لیکن، ساڑھے تین لاکھ افراد آج بھی ایسے ہیں جنھیں نہ بنگلہ دیش نے اپنایا، نہی وہ پاکستانی کہلائے۔ انہیں اب بھی 'محصورین' کہا جاتا ہے اور یہ پچھلے 42 سالوں سے بنگلہ دیش کی ہی سرزمین پر نہایت کسمپرسی کی حالت میں کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ان محصورین کے لئے کام کرنیوالی ایک امریکی غیر سرکاری تنظیم ’اوبیت ہیلپرز‘ کے سربراہ، انوار خان اکمل کے بقول، تیسری نسل جوان ہوگئی۔ لیکن، محصورین پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ تاحال نہیں ہو سکا۔ وقت آگیا ہے کہ ان سے متعلق سوچ کو نیا زاویہ دیا جائے۔
جمعرات کو کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے، انوار خان اکمل نے کہا کہ’ہم ہرسال 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کے واقعے کو یاد کرتے ہیں۔ اس دن محصورین کی حالت زار پر بھی بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ مگر اس کے لئے نئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، تاکہ ان کی حالت زار میں مثبت تبدیلی پیدا ہو‘۔
اُنھوں نے کہا کہ گزشتہ 42 سالوں سے تنظیم کی کوشش رہی ہے کہ اِن لوگوں کو پاکستان لایاجائے۔
اُن کے بقول، اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِن لوگوں نے اور ان کے بزرگوں نے پاکستان کے لئے قربانیاں دی ہیں، لیکن، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نوجوان ان قربانیوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کم از کم اس تیسری نسل کے لئے ہمیں کوئی حل نکالنا ہوگا جس سے وہ ایک باعزت زندگی گزار سکیں۔
ایک سوال کے جواب میں، انھوں نے بتایا کہ ’ان لوگوں کی شہریت کے لئے کچھ اقدامات کئے گئے ہیں۔ چند سیاسی جماعتوں نے ووٹ کی خاطر ان کا ووٹنگ لسٹوں میں اندراج کروادیا اور انھیں شناختی کارڈ بھی جاری ہوچکے ہیں۔ مگر، پاسپورٹ نہیں بن پاتا، کیونکہ انکے شناختی کارڈ پر کیمپ کا پتہ لکھا ہے۔ پاسپورٹ نہ ہونے پر ان محصورین کو پاکستان نہیں لایا جاسکتا‘۔
پریس کانفرنس کے دوران تنظیم کی کاوشوں پر مبنی ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی، جس میں ان کیمپوں میں رہنے والے افراد کے شب و روز اور انہیں درپیش بنیادی مسائل کو اجاگر کیا گیا۔
'اوبیت ہیلپرز' کی ابتداٴ
انوارخان اکمل نے بتایا کہ کیمپوں میں رہنے والے محصورین بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اوبیت ہیلپرز کی بنیاد اس طرح پڑی کہ ایک دفعہ انھیں کسی سلسلے میں ڈھاکا جانا ہوا، تو ایک پتلی گلی سے گزرنا تھا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ وہاں نہیں جا سکتے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس پتلی گلی میں کیمپوں میں رہنیوالی خواتین کھلے آسمان تلے غسل کرتی ہیں، جس کیلئے گلی کے کناروں پر بچوں کو کھڑا کردیا جاتا ہے کہ کوئی اس گلی میں جا نہ سکے۔
اور یہ صورتحال دیکھ کر، اُن سے رہا نہیں گیا اور انہوں نے اپنی طرف سے خواتین کے لئے غسل خانے تعمیر کرادیئے۔ وہ مستقبل میں ان لوگوں کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ لہذا، انہوں نے اوبیت ہیلپرز کی بنیاد ڈالی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق، بنگلہ دیش کے 13 شہروں میں 100 سے زائد کیمپس موجود ہیں، جِن میں ساڑھے تین لاکھ محصورین کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
انوار خان کا کہنا ہے کہ اگر بنگلہ دیش میں فلاح و بہبود کیلئے کام کرنیوالی دیگر بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیمیں ان محصورین کی امداد کریں، تو ان کی حالت میں انقلابی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
ان محصورین کے لئے کام کرنیوالی ایک امریکی غیر سرکاری تنظیم ’اوبیت ہیلپرز‘ کے سربراہ، انوار خان اکمل کے بقول، تیسری نسل جوان ہوگئی۔ لیکن، محصورین پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ تاحال نہیں ہو سکا۔ وقت آگیا ہے کہ ان سے متعلق سوچ کو نیا زاویہ دیا جائے۔
جمعرات کو کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے، انوار خان اکمل نے کہا کہ’ہم ہرسال 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کے واقعے کو یاد کرتے ہیں۔ اس دن محصورین کی حالت زار پر بھی بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ مگر اس کے لئے نئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، تاکہ ان کی حالت زار میں مثبت تبدیلی پیدا ہو‘۔
اُنھوں نے کہا کہ گزشتہ 42 سالوں سے تنظیم کی کوشش رہی ہے کہ اِن لوگوں کو پاکستان لایاجائے۔
اُن کے بقول، اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِن لوگوں نے اور ان کے بزرگوں نے پاکستان کے لئے قربانیاں دی ہیں، لیکن، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ نوجوان ان قربانیوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ کم از کم اس تیسری نسل کے لئے ہمیں کوئی حل نکالنا ہوگا جس سے وہ ایک باعزت زندگی گزار سکیں۔
ایک سوال کے جواب میں، انھوں نے بتایا کہ ’ان لوگوں کی شہریت کے لئے کچھ اقدامات کئے گئے ہیں۔ چند سیاسی جماعتوں نے ووٹ کی خاطر ان کا ووٹنگ لسٹوں میں اندراج کروادیا اور انھیں شناختی کارڈ بھی جاری ہوچکے ہیں۔ مگر، پاسپورٹ نہیں بن پاتا، کیونکہ انکے شناختی کارڈ پر کیمپ کا پتہ لکھا ہے۔ پاسپورٹ نہ ہونے پر ان محصورین کو پاکستان نہیں لایا جاسکتا‘۔
پریس کانفرنس کے دوران تنظیم کی کاوشوں پر مبنی ایک دستاویزی فلم بھی دکھائی گئی، جس میں ان کیمپوں میں رہنے والے افراد کے شب و روز اور انہیں درپیش بنیادی مسائل کو اجاگر کیا گیا۔
'اوبیت ہیلپرز' کی ابتداٴ
انوارخان اکمل نے بتایا کہ کیمپوں میں رہنے والے محصورین بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اوبیت ہیلپرز کی بنیاد اس طرح پڑی کہ ایک دفعہ انھیں کسی سلسلے میں ڈھاکا جانا ہوا، تو ایک پتلی گلی سے گزرنا تھا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ وہاں نہیں جا سکتے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ اس پتلی گلی میں کیمپوں میں رہنیوالی خواتین کھلے آسمان تلے غسل کرتی ہیں، جس کیلئے گلی کے کناروں پر بچوں کو کھڑا کردیا جاتا ہے کہ کوئی اس گلی میں جا نہ سکے۔
اور یہ صورتحال دیکھ کر، اُن سے رہا نہیں گیا اور انہوں نے اپنی طرف سے خواتین کے لئے غسل خانے تعمیر کرادیئے۔ وہ مستقبل میں ان لوگوں کے لئے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ لہذا، انہوں نے اوبیت ہیلپرز کی بنیاد ڈالی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق، بنگلہ دیش کے 13 شہروں میں 100 سے زائد کیمپس موجود ہیں، جِن میں ساڑھے تین لاکھ محصورین کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
انوار خان کا کہنا ہے کہ اگر بنگلہ دیش میں فلاح و بہبود کیلئے کام کرنیوالی دیگر بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیمیں ان محصورین کی امداد کریں، تو ان کی حالت میں انقلابی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔