|
اسلام آباد__پاکستان نے روس یوکرین تنازع میں غیر جانب دار رہنے کی حکمت عملی برقرار رکھتے ہوئے یوکرین سے متعلق سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے سوئٹزرلینڈ کی دعوت قبول نہیں کی ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ پہلے سے طے شدہ پروگرامز اور دیگر عوامل کے باعث اس اجلاس میں شرکت نہیں کررہے ہیں۔
مبصرین پاکستان کے یوکرین سمٹ میں شریک نہ ہونے کے فیصلے کو خطے کے ممالک کے ساتھ بڑھتے روابط اور بلاکس کی سیاست کا حصہ نہ بننے کی پالسی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو تصدیق کی تھی کہ 15 اور 16 جون کو ہونے والی یوکرین سمٹ کے لیے پاکستان کو سوئٹزرلینڈ کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا تھا تاہم کئی عوامل کے باعث پاکستان اس کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان 24 فروری 2022 کو اس وقت ماسکو کے دورے پر تھے جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔ اس دورے پر واشنگٹن نے اسلام آباد سے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
البتہ پاکستان نے یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں غیر جانب دارانہ سفارتی پوزیشن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔
روس نے جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یوکرین پر حملہ کیا اور روس اس کارروائی کو خصوصی ملٹری آپریشن قرار دیتا ہے جب کہ اس جنگ میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک اور بے گھر ہو چکے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کے شہر لُوسیرن کے نواح میں واقع بُرگن شٹوک ریزورٹ میں ہونے والا دو روزہ سربراہی اجلاس یوکرین کے امن وژن کے لیے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے منعقد کیا جا رہا ہے۔ یہ یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کے 10 نکاتی امن فارمولے کا حصہ ہے۔
سوئٹزرلینڈ نے اس سربراہی اجلاس کے لیے 160 ملکوں کو دعوت دی تھی لیکن ان میں اس میں صرف 90 کے قریب ممالک ہی شرکت کررہے ہیں۔
چین اور گلوبل ساؤتھ کے کئی ممالک بھی روس کی عدم موجودگی میں امن مذاکرات میں شامل ہونے پر رضامند نہیں ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات اور معاشی و علاقائی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کے وہ یوکرین روس تنازع میں کسی ایک فریق کی طرف داری کرے۔
’حالات اجازت نہیں دیتے‘
تھنک ٹینک سنٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے بانی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور سابق سفیر علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ اسلام آباد یوکرین تنازع میں مغرب یا مشرق میں سے کسی ایک جانب جھکاؤ دکھانا نہیں چاہتا ہے۔
ان کے بقول سوئٹزر لینڈ کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے سے اسلام آباد کے غیر جانب دار رہنے کے مؤقف کی عکاسی ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے سرور نقوی کا کہنا تھا کہ یوکرین جنگ کے آغاز کے وقت وزیرِ اعظم عمران خان کے دورۂ روس سے اسلام آباد کے ماسکو کی جانب ہونے کا تاثر گیا تھا تاہم اس کے بعد سے پاکستان غیر جانب دار رہنے کی حکمتِ عملی اپنائے ہوئے ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان یوکرین سمٹ میں شرکت کرتا تو روس کو اس پر اعتراض ہوسکتا تھا۔ اسلام آباد نے شرکت نہ کرنے کی ایک اور وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ چین جیسے پاکستان کے ہم خیال ممالک بھی اس میں شریک نہیں ہو رہے۔
قومی سلامتی و خارجہ امور کے تجزیہ نگار ڈاکٹر سید محمد علی کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ماضی میں پاکستان کے یوکرین سے اچھے تعلقات رہے ہیں اور حالیہ عرصے میں روس سے تعلقات میں بھی کچھ گرم جوشی آئی ہے۔
ان کے بقول، ایسے حالات میں کوئی ایسا اقدام جس سے کسی ایک فریق کی طرف داری کا تاثر ملتا ہو وہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان علاقائی و داخلی سلامتی اور معاشی و توانائی کی ضروریات کے پیش نظر بھی یورپی تنازع میں براہ راست فریق بننا نہیں چاہتا۔
پاکستان تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیشِ نظر روس سے سستے داموں تیل کی خریداری کا خواہاں ہے۔ وہیں پاکستان روس سے گندم خریدنے والے ملکوں میں بھی شامل ہے۔
کیا پاکستان غیر جانب دار رہ سکے گا؟
ایسے میں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ یوکرین سمٹ میں شرکت سے انکار پر امریکہ و مغرب پاکستان سے ناراضگی کا اظہار تو نہیں کریں گے؟ اور کیا پاکستان اپنی غیر جانبداری کی پالیسی پر قائم رہ سکے گا؟
سرور نقوی نے کہا کہ پاکستان کے شریک نہ ہونے کو مغرب اور امریکہ نوٹس ضرور کریں گے لیکن اس سے اسلام آباد کے دنیا سے تعلقات میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
ان کے بقول اس سے قبل صدر بائیڈن کے ڈیموکریسی سمٹ میں بھی پاکساتن نے شرکت نہیں کی تھی۔ اسی طرح یہ سمٹ بھی گزر جائے گی۔
سید محمد علی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یوکرین تنازع پر پاکستان کا مؤقف پہلے سے واضع ہے لہذا سمٹ میں عدم شرکت کی وجہ سے اسلام آباد پر کوئی دباو نہیں آئے گا۔
پاکستان کا مؤقف کیا ہے؟
وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا تھا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے اطلاق کا حامی ہے جس میں ریاستوں کی خود مختاری اورعلاقائی سالمیت کا احترام، تنازعات کا حل اور تمام ریاستوں کے لیے یکساں تحفظ شامل ہیں کے رہنما اصول شامل ہیں۔
ممتاز زھرہ کے بقول اسلام آباد نے روس یوکرین تنازع میں غیر جانب داری برقرار رکھنے کے لیے سربراہی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا جو ایک سفارتی اقدام ہے۔
ان کے بقول خاص طور پر یہ فیصلہ اس لیے بھی کیا گیا کہ روس اس کانفرنس میں شریک نہیں ہورہا ہے۔
گذشتہ سال پاکستان میں یوکرین کے سفیر نے وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ یوکرین کے معاملے پر اسلام آباد عالمی کوششوں میں شامل ہو اور کھل کر روسی جارحیت کی مذمت کرے۔
دوسری جانب روس پاکستان کے غیر جانب دارانہ موقف کو سراہتا رہا ہے۔
پاکستان میں روس کے سفیر البرٹ خوریف نے رواں برس وی او اے کے ایک سوال کے جواب میں پاکستان کی غیر جانب داری کی تعریف کی تھی اور اس کا شکریہ بھی ادا کیا تھا۔
فورم