بلوچستان پولیس کی سرجن ڈاکٹر باقر شاہ کے قتل کے خلاف جمعہ کو پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور بلوچ ڈاکٹرز فورم کی اپیل پر صوبے کے تمام سرکاری اسپتالوں میں ہڑتال جاری ہے۔
ڈاکٹر باقر کو جمعرات کی شام اُن کے گھر کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
کوئٹہ پولیس کے ڈی آئی جی آپریشنز نذیراحمد کُرد نے وائس آف امریکہ کو بتایا ڈاکٹر باقر کے قتل کے بعد جمعرات کو رات دیر گئے صوبائی دارالحکومت کے مختلف نواحی علاقوں میں چھاپے مار کر 30 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
قتل کی تحقیقات کے لیے کو ئٹہ پولیس کے سربراہ احسن محبوب اور ڈی آئی جی حامد شکیل کی سربراہی میں دو تفتیشی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جو اپنی تحقیقاتی رپورٹ 15 دنوں میں متعلقہ حکام کو پیش کریں گی۔
وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے اسلام آباد میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ ڈاکٹر باقر کی خاندانی دشمنی بھی تھی اس لیے اس قتل کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
پولیس سرجن ڈاکٹر باقر شاہ نے گزشتہ سال کوئٹہ کے نواحی علاقے خروٹ آباد میں ہلاک ہونے والے پانچ غیر ملکیوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کی تھی جس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ ان افراد کی ہلاکت سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے ہوئی تھی۔
خروٹ آباد کے واقعے کے فوراً بعد پولیس اور فرنیٹئر کور کے عہدیداروں نے کہا تھا کہ ہلاک ہونے والے غیر ملکی افراد خودکش حملہ آور تھے اور پولیس نے انھیں کوئٹہ میں داخل ہونے سے روک کر تخریب کاری کے ایک بڑے منصوبے کو ناکام بنا دیا۔
ڈاکٹر باقر کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں سکیورٹی فورسز کے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ غیر ملکی نہتے تھے۔ پولیس کے سرجن باقر شاہ نے کہا تھا کہ ان کے اس موقف کے بعد ان پر حملہ بھی کیا گیا۔
رواں سال کے دوران بلوچستان کے مختلف اضلاع میں چار ممتاز ڈاکٹروں کو نا معلوم افراد نے ہدف بنا کر قتل کیا ہے اور قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ڈاکٹر کے قاتل کو اب تک گرفتار کر نے میں کامیاب نہیں ہوئے۔