کراچی میں سندھ پولیس کے ایس ایس پی پر مبینہ خودکش حملہ کیا گیا جس میں خودکش حملہ آور اور دو افراد ہلاک ہوگئے۔ حملے میں تین پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
ایس ایس پی راؤ انوار کے مطابق، دفتر سے گھر واپسی پر ان کی بکتر بند سے موٹر سائیکل سوار ٹکرایا جس کے بعد دھماکہ ہوگیا۔ حملے میں مبینہ خودکش حملہ آور موقع پر مارا گیا جبکہ خودکش حملہ آور کا دوسرا مبینہ ساتھی پولیس کی فائرنگ سے مارا گیا۔ حملے میں ایس ایس پی محفوظ رہے۔
پولیس کے مطابق، اس موقع پر حملہ آور کے دیگر ساتھیوں کی جانب سے فائرنگ بھی کی گئی۔ تاہم، وہ موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور علاقے کا گھیراؤ کرکے واقعے کی تحقیقات اور ملزمان کے دیگر ساتھیوں کی تلاش شروع کردی گئی ہے۔
ایس ایس پی راؤ انوار احمد سیکورٹی وجوہات کی بنا پر بکتربند گاڑی ہی میں سفر کرتے ہیں۔ ان پر اس سے قبل بھی خودکش حملے ہوچکے ہیں جن میں وہ بال بال بچ نکلے۔ پانچ اپریل دو ہزار بارہ راؤ انوار کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ ملیر ہالٹ سے گزر رہے تھے۔ حملے میں کم از کم چار افراد ہلاک جبکہ ایک درجن سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
دو مئی دوہزار پندرہ میں بھی دہشتگردوں نے ایس ایس پی ملیر کی گاڑی کو نشانہ بنایا، حملے میں چار دہشتگرد مارے گئے اور اس بار بھی خوش قسمتی سے ایس ایس پی بچ نکلے۔
وزیر داخلہ سندھ سہیل انوار سیال نے ایس ایس پی راؤ انوار پر حملے کا نوٹس لیتے ہوئے حکام سے رپورٹ طلب کرلی ہے، وزیر داخلہ سندھ نے راؤ انوار سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے ان کی خیریت بھی دریافت کی۔
ایس ایس پی راؤ انوار طالبان سمیت دیگر کالعدم شدت پسند تنظیموں سے مقابلے کی شہرت رکھتے ہیں۔ صرف اسی سال کے پہلے 16 روز میں ایس ایس پی کی سربراہی میں ہونے والے تین مختلف آپریشنز میں ایک درجن سے زائد مبینہ دہشتگرد مارے جاچکے ہیں، جو مہران ائیربیس اور کراچی ائیرپورٹ سمیت دیگر اہم حملوں میں مطلوب تھے۔ ان کے مخالفین ان مبینہ دہشت گردوں کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ ایس ایس پی راؤ انوار کو ایم کیو ایم کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔