رسائی کے لنکس

راہل گاندھی کی پارلیمان کی رکنیت ختم؛ بھارت کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت میں ہتک عزت کے ایک معاملے میں گجرات کی مقامی عدالت نے کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی کو دو سال کی قید کی سزا سنائے جانے اور پھر لوک سبھاسے ان کی رکنیت منسوخ کیے جانے کا معاملہ طول پکڑتا جا رہا ہے۔ کانگریس اور حزبِ اختلاف کی جانب سے اس کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے وہیں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اس کا خیرمقدم کر رہی ہے۔

پیر کو پارلیمنٹ میں بھی اس معاملے پر ہنگامہ ہوا۔ لوک سبھا میں اپوزیشن ارکان نے اسپیکر کی میز پر کاغذ پھینکے اور نعرے لگائے جس کی وجہ سے ایوان کی کارروائی ملتوی کر دی گئی۔

کانگریس نے اتوار کو ملک کی مختلف ریاستوں میں احتجاج کیا تھا۔ کئی مقامات پر کارکنوں نے مشعل بردار جلوس نکالے جب کہ حکومت کے علامتی پتلے نذر آتش کیے۔

کانگریس کی مرکزی قیادت کی جانب سے نئی دہلی میں گاندھی سمادھی پر احتجاج کیا گیا جس میں پارٹی صدر ملک ارجن کھرگے اور پرینکا گاندھی سمیت متعدد رہنماؤں نے خطاب کیا جب کہ اپوزیشن کے خلاف حکومت کی مبینہ کارروائیوں کی مذمت کی۔

امریکہ کی وزارتِ خارجہ نے بھی کہا ہے کہ وہ راہل گاندھی کے خلاف عدالتی کیس کے معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہے اور وہ جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور اظہار کی آزادی کے تحفظ کے تعلق سے مشترکہ عہد پر بھارت کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔

وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے پیر کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی حکمرانی کا احترام اور عدالتی آزادی کسی بھی جمہوریت کے لیے انتہائی اہم ہے۔

ان کے مطابق امریکہ بھارت میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ رابطے میں اظہار کی آزادی سمیت جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیتا آیا ہے۔ یہی دونوں جمہوریتوں کے استحکام کی کلید ہے۔

میڈیا میں اس سوال پر بحث ہو رہی ہے کہ کیا راہل گاندھی جیل چلے جائیں گے یا اعلیٰ عدالت کی جانب سے فیصلے پر کوئی اور حکم بھی آ سکتا ہے۔ اس پہلو کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کیا اس فیصلے کا 2024 کے پارلیمانی انتخابات پر کوئی اثر پڑے گا؟

بھارت کے عوامی نمائندگی ایکٹ کے مطابق اگر کسی قانون ساز کو دو سال کی جیل کی سزا ہوتی ہے تو وہ سزا کاٹنے کے بعد مزید چھ سال تک الیکشن لڑنے کا اہل نہیں رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ راہل گاندھی کی سزا اگر برقرار رہتی ہے تو وہ 2031 تک انتخاب لڑنے کے نااہل ہو جائیں گے۔

کانگریس نے اس فیصلے کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

کانگریس اس سلسلے میں قانونی ماہرین سے مشاورت کر رہی ہے۔ عدالت نے ان کی سزا کو 30 دن تک معطل کر کے انہیں اس دوران فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا موقع دیا ہے۔

کانگریس نے رہل گاندھی کے خلاف فیصلے کو سیاسی قرار دیا اور وزیرِ اعظم نریندر مودی پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے مطابق بی جے پی ملک سے حزبِ اختلاف کو ختم کرنا چاہتی ہے۔

بی جے پی کے رہنماؤں نے راہل گاندھی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ بتاتا ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

بی جے پی رہنماؤں کا الزام ہے کہ راہل گاندھی نے اپنے بیان سے جس پر ان کو سزا ہوئی ہے، مودی برادری کی توہین کی ہے ۔مودی برادری پسماندہ یا ’ادر بیک ورڈ کلاس‘ (او بی سی) ہے۔

ان کے مطابق راہل گاندھی دوسروں کی توہین کرنے کے عادی ہیں۔

بہت سے مبصرین مودی برادری کو پسماندہ یا او بی سی ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ کئی شخصیات کی مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی کنیت مودی تھی مگر وہ او بی سی نہیں تھے۔

مبصرین کے مطابق بی جے پی اس لیے مودی برادری کو او بی سی بتا رہی ہے تاکہ وہ انتخابات میں راہل بنام او بی سی کا ایجنڈہ سیٹ کر سکے۔

بھارت کے متعدد قانون دان کہہ رہے ہیں کہ مذکورہ فیصلے میں کئی خامیاں ہیں اور اعلیٰ عدالت میں اس کا ٹھہرنا مشکل ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ راہل گاندھی نے کرناٹک کے کولار میں تقریر کی تھی جب کہ کیس گجرات کے ضلع سورت میں درج کیا گیا۔ انہوں نے تین افراد نیرو مودی، للت مودی اور نریند رمودی کے نام لیے تھے لیکن کیس پرنیش مودی نے کیا جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔

انہوں نے فیصلے میں اور بھی کئی خامیاں بتائی ہیں۔

سابق مرکزی وزیر اور ملک کے معروف قانون دان کپل سبل کا کہنا ہے کہ اگر اعلیٰ عدالت فیصلے کو صرف معطل کرتی ہے تو اس سے راہل گاندھی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ البتہ اگر سزا کالعدم قرار دیتی ہے تو ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت بچ جائے گی۔

راہل گاندھی کانگریس کے سینئر رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ کانگریس کے صدر رہ چکے ہیں جو کہ ایک طویل عرصے تک ملک کی حکمراں جماعت رہی ہے۔ ان کے نانا پنڈت جواہر لعل نہرو، دادی اندرا گاندھی اور والد راجیو گاندھی ملک کے وزیرِ اعظم رہے ہیں۔

مبصرین کے مطابق اس وقت کانگریس کو اپنے وجود کی لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے اور راہل گاندھی نریندر مودی کی مقبولیت کے آگے بے بس ہیں۔ ان کے سامنے مودی کی حامی ہندو اکثریت کا مقابلہ کرنے کا چیلنج در پیش ہے۔

بعض مبصرین اس فیصلے کو کانگریس کے لیے سیاسی فائدہ کا سبب بھی بتا رہے ہیں۔ان کے مطابق اگر اعلیٰ عدالت سے راہل گاندھی کو راحت مل جاتی ہے تو وہ فاتح کی حیثیت سے ابھریں گے۔

سینئر تجزیہ کار ویریندر سینگر کا کہنا ہے کہ اگر چہ فیصلے سے راہل او رکانگریس پارٹی کو نقصان پہنچا ہے لیکن راہل کی بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی کے تناظر میں اس سے فائدہ بھی پہنچ سکتا ہے۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ جب کانگریس کی قیادت اس سے فائدہ اٹھا سکے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ویریندر سینگر کا کہنا تھا کہ راہل گاندھی کی رکنیت کا خاتمہ ان کے حق میں ہمدردی کی لہر پیدا کر سکتا ہے۔

ویریندر سینگر اور بعض دیگر تجزیہ کار سابق وزیرِ اعظم اندرا گاندھی کی مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی رکنیت عدالت کے حکم سے ختم ہو گئی تھی اور ان کی حکومت چلی گئی تھی لیکن پھر انہوں نے ملک گیر دورے کیے اور دوبارہ جیت کر برسراقتدار آئیں۔

ان کے مطابق اگر اپوزیشن متحد ہو جائے جس کی توقع کی جا رہی ہے تو اگلے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کو شکست دی جا سکتی ہے جب کہ بعض تجزیہ کار اس بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔

بی جے پی کا کہنا ہے کہ عوام مودی حکومت کے کاموں کو دیکھ کر اسے ووٹ دیتے ہیں اور 2024 میں بھی اسے کامیابی ملے گی جب کہ وہ پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کریں گے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا فوری نتیجہ اس شکل میں سامنے آیا ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہوتی نظر آرہی ہیں۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی ایک دوسرے کی کٹر حریف جماعتیں ہیں لیکن عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور دہلی کے وزیرِ اعلیٰ اروند کیجری وال نے راہل گاندھی کے حق میں کھل کر بیان دیا اور کہا کہ یہ صرف راہل پر نہیں بلکہ پوری اپوزیشن پر حملہ ہے۔

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ اور ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی صدر ممتا بنرجی اور سما جوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے بھی راہل کی حمایت کی ہے۔

خیال رہے کہ ان دونوں رہنماؤں نے اعلان کیا تھا کہ وہ 2024 کے انتخابات سے قبل کانگریس کے بغیر ایک محاذ بنائیں گے۔

پیر کو کانگریس کے صدر ملک ارجن کھرگے کے دفتر میں بھی ایک اجلاس ہوا جس میں تازہ صورتِ حال سے نمٹنے پر غور کیا گیا۔

اس اجلاس میں حزبِ اختلاف کی17 جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی جن میں ٹی ایم سی بھی شامل تھی۔

تجزیہ کار سنجے جھا کہتے ہیں کہ اس فیصلے اور حکومت کے اقدامات نے حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو متحد کر دیا ہے۔ جو کام وہ اپنے آپ نہیں کر پا رہی تھیں مودی حکومت نے کر دیا ہے۔

تجزیہ کار اجے کمار کے خیال میں اپوزیشن جماعتوں کا اس طرح اکٹھا ہونا عارضی ہے۔ ان میں اتحاد نہیں ہو سکتا کیوں کہ کئی اپوزیشن رہنما وزیرِ اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں جن میں راہل گاندھی کے علاوہ ممتا بنرجی، اروند کیجری وال اور تیلنگانہ کے وزیرِ اعلیٰ کے چندر شیکھر راؤ شامل ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG