سپریم کورٹ نے کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز، گورنر ہاؤس اور وزیر اعلیٰ ہاؤس سمیت سرکاری اور نجی عمارتوں کے باہر رکاوٹیں اور تجاوزات ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے تین روز میں رپورٹ طلب کر لی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ کسی کو عوام کی آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ راستے بند کرنا اور رکاوٹیں ڈالنا غیر قانونی ہے ، وفاقی اور صوبائی حکومت خود تجاوزات کھڑی کررہی ہے۔
پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ایک تین رکنی بینچ رواں ہفتے کرچی رجسٹری میں کیسز کی سماعت کر رہا ہے۔ بنچ کے دیگر ارکان میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کراچی میں تجاوزات سے متعلق متفرق درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ سرکار جہاں انکروچمنٹ کرتی ہے وہاں تو زیادہ سزا ہونی چاہئے۔ نیول ہیڈ کوارٹرز، گورنر ہاؤس، وزیراعلیٰ ہاؤس، رینجرز ہیڈکوارٹرز، سب نے فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ کیا ہوا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے سرکاری اور نجی دفاتر اور عمارات کے باہر رکاوٹوں اور فٹ پاتھ پر تجاوزات پر برہمی کا اظہار کیا اور متعلقہ اداروں کو حکم دیا کہ تین روز میں تمام رکاوٹیں ہٹائی جائیں اور تجاوزات ختم کی جائیں۔ عدالت نے اس بارے میں تین روز میں رپورٹ بھی طلب کرلی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو عوام کی آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کسی سرکاری ادارے کو خطرہ ہے تو وہ کسی محفوظ جگہ چلے جائیں۔ سماعت کے موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیکیورٹی ایشوز ہیں، بم پرحملے ہوتے ہیں اسی لئے رکاوٹیں ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئے کہ پبلک پر حملے ہوتے رہیں اور آپ محفوظ رہیں، یہ کہاں کا قانون ہے؟ انھوں نے کہا کہ ان کے آنے سے پہلے سپریم کورٹ کے باہر بھی سڑک بند تھی میں نے کھلوا دی۔ سیکیورٹی کے نام پر سڑکوں کو بند مت کریں۔
چیف جسٹس نے کے ایم سی کے وکیل سے کہا کہ آپ رینجرز ہیڈکوارٹر کے سامنے سے تجاوزات کیوں نہیں ہٹاتے؟ غریب لوگوں کے گھر تو توڑ دیئےگئے، یہ بھی ہٹائیں بعد میں انہیں بھی معاوضہ دے دیجیے گا۔
بینچ کے ایک اور رکن جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اداروں سے ہمیں تو آپ سے زیادہ خطرہ ہے۔ آپ دہشت گرد پکڑتے ہیں ہم تو انہیں سزائے موت دیتے ہیں، لیکن ایسا کام ہم نہیں کرتے۔
عدالت نے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کو حکم دیا کہ وہ تمام سڑکیں کلیئر کریں۔ تجاوزات کے خاتمے سے متعلق اخراجات بھی تجاوزات قائم کرنے والوں ہی سے وصول کئے جائیں۔
زیر سماعت دیگر مقدمات
عدالت نے ایک اور درخواست میں کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ کے متاثرین کا معاملہ بھی حل کرنے کا حکم دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے گجر نالہ اورنگی اور محمود آباد نالہ متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی سے متعلق کیس میں سندھ حکومت کو ایک ماہ میں متاثرین کو پلاٹوں کی الاٹمنٹ دینے حکم دیا ہے۔
اس کے علاوہ بینچ نے کراچی میں عدالتی حکم پر مسمار کی گئی رہائشی عمارت نسلہ ٹاور کے 44 متاثرین کو زمین فروخت کرکے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
نسلہ ٹاور کے متاثرین کو معاوضہ ادائیگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران متاثرین کے وکیل شہاب سرکی ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ عمارت بنانے والے بلڈر عبدالقادر کا ٹیلا کا انتقال ہوچکا ہے اور تاحال متاثرین کو معاوضہ نہیں ملا۔
عدالت نے 44 متاثرین کو معاوضہ کی فوری ادائیگی کے لئے نسلہ ٹاور کی زمین فروخت کرکے الاٹیز کو معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ نسلہ ٹاور کے متاثرین ملکیت کے دستاویزی شواہد کے ساتھ سندھ ہائی کورٹ کے آفیشل اسائنی سے رابطہ کریں۔
سپریم کورٹ کا بنچ جمعے کے روز بھی کراچی میں مقدمات کی سماعت جاری رکھے گا۔
فورم