رسائی کے لنکس

کیمرے کے سامنے ڈانٹنے سے سسٹم ٹھیک ہو گا؟


گزشتہ ہفتے چیف جسٹس کے لاڑکانہ میں سیشن کورٹ کے دورے کے بعد جب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج گل ضمیر سولنگی چیف جسٹس کے سوالات کے اطمینان بخش جواب نہ دے سکے تو انہیں میاں ثاقب نثار کی برہمی کا سامنا کرنا پڑا۔ جاتے جاتے ملک کے اعلی ترین منصف نے ماتحت جج کے فون کو کیمروں کے سامنے ان کی میز پر پٹخ دیا۔

اس سے سوشل میڈیا پر ایک متنازع مگر متنوع مکالمے کا آغاز ہوا۔ کیا اعلیٰ عدلیہ کو کیمروں کے سامنے ایسے دورے کرنے چاہیئے؟ کیا ماتحت عدلیہ کو کیمرے کے سامنے ڈانٹا جائے۔ کیا اس سے عدالت کا وقار مجروح نہیں ہوتا؟ کیا ایسے دوروں سے سسٹم میں تبدیلی ممکن ہے یا اس کے لئے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ان سب سوالات پر سوشل میڈیا کے صارفین نے اپنی آرا کا اظہار کیا۔

صحافی طلعت حسین نے سوال پوچھا کہ ایک جج کے دوسرے جج کے ساتھ ایسے سلوک پر قانون کیا کہتا ہے؟

​ریحان کہتے ہیں کہ کیمروں کے سامنے تضحیک سے ماتحت عملے کا مورال ڈاؤن ہوتا ہے۔ یہ مینیجمنٹ کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔ ادارے سسٹم سے چلتے ہیں، اچھی کارکردگی کے تخمینے اور اس کے مطابق جزا یا سزا سے ادارے چلتے ہیں۔

ممتاز صحافی مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ عدالتوں کا نظام نیشنل جوڈیشل پالیسی کی کمیٹی کے فورم کے ذریعے بہتر کیا جاسکتا ہے نہ کہ کھلے عام چھاپے مارنے سے یا عوام کے سامنے بے عزتی کرنے سے۔

سید علی عباس زیدی کہتے ہیں کہ کورٹ روم میں ایسے فوری رد عمل کی بجائے سرکاری طور پر نوٹس جاری کیا جانا چاہیئے تھا۔ ان کا بھی کہنا تھا کہ سسٹم کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

احسن سلیم کہتے ہیں ہمیں نظام کی بہتری چاہیئے جو کیمروں کے سامنے نہیں ہوتی۔

صحافی مہر تارڑ کا کہنا تھا کہ عوام کے سامنے اس قسم کے عمل سے زیادہ مناسب تھا کہ چیف جسٹس عدالتوں میں لاکھوں زیر التوا مقدموں کے فیصلے سنانے پر توجہ دیتے۔

اپنی ایک اور ٹویٹ میں صحافی مطیع اللہ نے کہا کہ چیف جسٹس کے ایسے عمل سے عدالت کا وقار مجروح ہوا۔ سول جج چیف جسٹس ہائی کورٹ کا ماتحت نہیں ہے۔ اس کی عدالت میں ہائی کورٹ کا جج بھی نہیں جا سکتا۔

محمد اکرم کہتے ہیں کہ پہلے اس بات پر مسلسل تنقید کی جارہی تھی کہ چیف جسٹس نچلی عدالتوں کا جائزہ کیوں نہیں لیتے، اب جب کہ انہوں نے ایسا کرنا شروع کردیا ہے تو اس پر بھی تنقید کی جارہی ہے۔ جب ایک جج سے جاری کارروائی کے بارے میں چیف جسٹس نے پوچھا تو اسے معلوم ہی نہیں کہ کس قانون کے تحت کارروائی ہو رہی ہے۔

XS
SM
MD
LG