پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ایئر مارشل ارشد ملک کو کام پر بحال کرنے کی استدعا مسترد اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کو کام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان، جسٹس گلزار احمد نے ارشد ملک سے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ "یہ موصوف خود ڈیپوٹیشن پر آئے اور دس بندوں کو ساتھ لے آئے۔ ایسا کریں کہ پی آئی اے پاکستان کی ایئر فورس کو ہی دے دیں۔"
سپریم کورٹ میں منگل کو پی آئی اے کے سی ای او ایئر مارشل ارشد ملک کو کام سے روکنے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر اعلیٰ عدالت نے سندھ ہائی کورٹ سے مقدمے کی تفصیلات طلب کر لیں۔
عدالت نے ارشد ملک کی برطرفی کا مقدمہ سندھ ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ منتقل کرنے کا حکم بھی دیا۔
ارشد ملک نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے برخلاف اُنہیں کام کرنے کی اجازت دی جائے۔
عدالت نے سی ای او پی آئی اے کا مقدمہ نجکاری کیس کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے اُنہیں کام پر بحال کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے دورانِ سماعت کہا کہ "پی آئی اے کسی کی جاگیر نہیں، قوم کا اثاثہ ہے۔ سی ای او کو عارضی انتظامات کے تحت لایا گیا تھا۔ پی آئی اے کا چیئرمین قانون کے مطابق آنا چاہیے۔"
اٹارنی جنرل انور منصور خان نے دلائل میں کہا کہ ارشد ملک کو طریقۂ کار کے مطابق پی آئی اے میں سی ای او کنفرم کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ معلوم نہیں کوئی ایئر مارشل پی آئی اے کو کیسے چلائے گا۔ بہتر ہے ایئر مارشل صاحب 'پیک اپ' کر لیں۔ حکومت طریقہ کار کے مطابق پی آئی اے کا نیا سربراہ تعینات کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ یہ موصوف خود ڈیپوٹیشن پر آئے اور دس بندوں کو ساتھ لے آئے۔ اگر ایسا ہے تو پی آئی اے پاکستان ایئر فورس کو ہی دے دیں۔ حکومت کیوں پی آئی اے کو چلا رہی ہے؟
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ موجودہ سی ای او جب سے آئے ہیں، ایئر لائن کے کرایوں میں 100 فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سی ای او کی تقرری کے لیے اشتہار دیا گیا تھا۔ جس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ دیکھنا ہوگا کہ اشتہار کو کوئی خاص ڈیزائن دے کر تو جاری نہیں کیا گیا۔ ہم پرانے اشتہارات کا بھی جائزہ لیں گے۔
ایئر لائن کی حالتِ زار کے بارے میں چیف جسٹس نے کہا کہ پی آئی اے میں سفر کر کے حال تو دیکھیں۔ عوام کے اثاثے کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہو سکتا۔ ارشد ملک کے نام پر آخر حکومت کیوں بضد ہے؟
عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں درخواست کیا تھی؟
سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ 31 دسمبر کو پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو افسر ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا اور ادارے میں نئی بھرتیوں، ملازمین کو نکالنے اور تبادلے پر بھی پابندی عائد کر دی تھی۔
سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ایئر مارشل ارشد ملک کو کام کرنے اور پی آئی اے میں خرید و فروخت، پالیسی سازی اور ایک کروڑ سے زائد کے اثاثے فروخت کرنے سے بھی روک دیا تھا۔
ایئر مارشل ارشد ملک کے خلاف ایئر لائنز سینئر اسٹاف ایسوسی ایشن (ساسا) کے جنرل سیکریٹری صفدر انجم نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں ان کا کہنا تھا کہ مطلوبہ عہدے کے لیے ایئر مارشل ارشد ملک تعلیمی معیار پر پورے نہیں اترتے اور ان کا ایئر لائن سے متعلق کوئی تجربہ نہیں ہے۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ایئر مارشل ارشد ملک نے 1982 میں بی ایس سی کیا اور اس کے بعد 'وار اسٹڈیز' سے متعلق تعلیم حاصل کی۔ اُنہیں ایئر لائن انڈسٹری اور کمرشل فلائٹس سے متعلق سول ایوی ایشن کے قوانین سے آگاہی نہیں ہے۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ ایئر مارشل ارشد ملک کی تعیناتی میں پبلک سیکٹر کمپنیز رولز 2013 اور رول 2 اے کو نظر انداز کیا گیا، جس کے تحت سی ای او تعینات کیے جاتے ہیں۔
عدالت نے سماعت کے دوران ارشد ملک کو کام کرنے سے روک دیا تھا لیکن اب یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچ گیا ہے۔
ارشد ملک پاکستان ایئر فورس میں بطور ایئر مارشل کام کر رہے تھے اور موجودہ حکومت نے انہیں پی آئی اے کی حالتِ زار بہتر کرنے کے لیے ادارے میں بھجوایا تھا۔ لیکن تاحال پی آئی اے کی حالت زار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آ سکی ہے جب کہ اب اس پر قرضوں کا بوجھ 400 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔