رسائی کے لنکس

ایک سال میں ’پی آئی اے‘ کے 1000 ملازمین فارغ


پاکستان کی قومی ائیرلائن، پی آئی اے میں ایک سال کے دوران ایک ہزار ملازمین ملازمتوں سے فارغ کر دیے گئے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر جعلی ڈگریوں کے حامل تھے۔

پائلٹس کا کہنا ہے کہ ’ڈیوٹی آورز‘ درست نہ ہونے کے باعث، اب تک آٹھ پائلٹ مستعفی ہوگئے ہیں۔

پی آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ ایک سال کے دوران ایک ہزار ملازمین کو فارغ کیا جا چکا ہے۔ ان ملازمین میں سے بیشتر ملازمین وہ ہیں جنہیں جعلی ڈگری کی وجہ سے ملازمت سے فارغ کیا گیا۔ جعلی ڈگریوں کے حامل700 ملازمین کو فارغ کیا گیا، جبکہ 400 سے زائد گھوسٹ ملازمین بھی شامل ہیں جو مختلف شعبوں سے فارغ کئے گئے ہیں۔

جن ملازمین کو فارغ کیا گیا ان میں سے زیادہ تر ملازمین کی تعداد فلائٹ سروسز اور دیگر محکموں سے ہے، اس کے علاوہ بعض ملازمین جو عرصہ دراز سے غیر حاضر تھے انہیں بھی فارغ کر دیا گیا ہے۔

اس سلسلے میں ترجمان پی آئی اے مشہود تاجور کا کہنا تھا کہ فلائٹ سروسز سے تعلق رکھنے والی بیشتر فضائی میزبان ایک سال کے دوران جو بیرون ملک پروازوں کے ساتھ جانے کے بعد واپس نہیں آئیں اور وہیں سلپ ہوگئی تھیں انہیں بھی ضابطے کی کارروائی کے بعد فارغ کر دیا گیا ہے۔ بعض ملازمین کو مختلف وجوہات کی بنا پر شوکاز نوٹس بھی جاری کئے گئے جس کا تسلی بخش جواب نہ دینے پر انہیں برطرف کر دیا گیا ہے۔

گزشتہ دنوں وزارت خزانہ کے مشیر حفیظ شیخ سے ملاقات کے دوران پی آئی اے کے ’سی ای او‘ ائیر مارشل ارشد ملک نے ملازمتوں سے متعلق بریفنگ بھی دی تھی۔

اس وقت پی آئی اے کے ملازمین کی تعداد 18 ہزار سے زائد ہے جو بین الاقوامی سطح پر مقرر کردہ معیار سے بہت زیادہ ہے۔ بین الاقوامی ائیرلائنز میں ملازمین کی تعداد جہازوں کی تعداد کے حساب سے رکھی جاتی ہے۔ لیکن، پی آئی اے کے پاس جہاز صرف 31 ہیں اور ملازمین 18ہزار سے زائد ہیں جو اس ادارے کی زبون حالی کی ایک بڑی وجہ بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ ملازمین کے لیے بھی جو مراعات ہیں وہ بھی ادارے پر اضافی بوجھ ہیں۔

ملازمین کو فارغ کیے جانے کے ساتھ ساتھ پی آئی اے 8 پائلٹس نے بھی گذشتہ ایک سال کے دوران استعفی دیدیے ہیں۔ اس حوالے سے پائلٹس ایسویسی ایشن پالپا کے سیکرٹری چاکر شاہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے پر ہمارے انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔ لیکن، یہ بات درست ہے کہ تناﺅ، عدم تحفظ اور سیفٹی رسک پروازوں کی منصوبہ بندی کی وجہ سے پی آئی اے انتہائی تربیت یافتہ اور تجربہ کار پائلٹوں سے محروم ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کے ایک فرسٹ آفیسر خرم بلوچ نے رواں ماہ 17 تاریخ کو اپنا استعفیٰ دیا۔ جو گزشتہ 9 برسوں سے ایئر لائن میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ اپنے استعفے میں انہوں نے کہا کہ حال ہی میں آپریشنز ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کاک پٹ کرو کے ساتھ تعاون ختم کردیا گیا ہے جو اس سے قبل پہلے نہیں ہوا۔ موجودہ انتظامیہ کی وجہ سے عملے میں خوف ہے اور انہیں انتظامیہ کے ساتھ تعاون یا پھر ملازمت سے سبکدوشی کا انتخاب کرنا پڑ رہا ہے۔

چاکر شاہ نے کہا کہ انتظامیہ نے فلائٹ ڈیوٹی ٹائم کی حد کی منصوبہ بندی میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں جس کی وجہ سے فلائٹ سے قبل پائلٹوں کو لازمی آرام کی شرط پوری نہیں ہو رہی ہے، جس سے کریو میں بے چینی پیدا ہوگئی ہے۔ اور یہ کہ یہ بات فلائٹ سیفٹی کے خلاف ہے۔

بقول ان کے، ایسی صورتحال کی وجہ سے ہمارے کچھ پائلٹس کو دل کے عارضہ کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ بعض کو دیگر بیماریوں کا بھی سامنا ہے۔ دن اور رات کے حوالے سے منصوبہ بندی درست نہیں کی جا رہی، کئی مرتبہ پائلٹس کو بارہ گھنٹوں تک فلائی کرنا پڑتا ہے جو بین الاقوامی معیار کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ پائلٹوں کی اکثریت اس جبری ماحول میں ڈیوٹی انجام دینے سے پریشان ہیں اور فلائٹ آپریٹ کرکے مسافروں اور طیارے کی سلامتی کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ تاہم، کنٹریکٹ پائلٹ اپنے کنٹریکٹس کی وجہ سے مجبور ہیں۔

ترجمان پی آئی اے مشہود تاجور نے اس حوالے سے کہا کہ اس بارے میں ہمارے ’پالپا‘ کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور جلد اس حوالے سے معاملات کو طے کر لیا جائے گا۔

مشہود تاجور نے کہا کہ پی آئی اے کو دوبارہ سے اس کی اصل حالت میں بحال کرنے کے لیے کوششیں جاری ہیں اور پی آئی اے رواں سال نومبر میں اپنے فلیٹ میں دو جہاز شامل کر رہی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ یہ دو جہاز لیز پر لیے جائیں گے، جبکہ مستقبل میں جہاز خریدنے کا بھی ارادہ ہے۔ لیکن، اس کے لیے حکومت کی طرف سے مدد اور اقتصادی حالت میں بہتری ضروری ہے۔ پی آئی اے 2023 تک اپنے فلیٹ کو 45 جہازوں تک بڑھانا چاہتی ہے۔

XS
SM
MD
LG