سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے معاملے پر عوامی نوٹس جاری کردیا ہے جس کے مطابق عدالتی فیصلے سے متاثر شخص عدالتِ عظمیٰ سے رجوع کر سکتا ہے۔
عدالت نے عدم پیشی پر سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو بھی دوبارہ نوٹس جاری کردیا ہے جب کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے واضح کیا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم کی طرف سےکوئی پیش نہ ہوا تو یک طرفہ کارروائی کریں گے۔
سپریم کورٹ میں منگل کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کے تعین کے کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
آئین کی اس شق کے تحت نااہل ہونے والے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف عدالت میں پیش نہیں ہوئے جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما جہانگیر ترین پیش ہوگئے۔
کئی سابق ارکانِ اسمبلی نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح اور نااہلی کی مدت کے تعین کے لیے درخواستیں دائر کی ہوئی ہیں جس پر عدالت نے تمام درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا ہے۔
بینچ كے ارکان میں جسٹس عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل ہیں۔
درخواستوں میں مطالبہ کیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے۔ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ ارکانِ اسمبلی بھی شامل ہیں جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔
منگل کو جب سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تمام لوگوں کو مؤقف پیش کرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔ کوئی آئے یا نہ آئے اس کی اپنی مرضی۔ نوازشریف کی طرف سے کوئی پیش نہ ہوا تو یک طرفہ کارروائی کریں گے۔ یک طرفہ فیصلہ بھی میرٹ پر فیصلے کے مترادف ہوتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو کسی بھی طرح فیصلے سے متاثر ہو اس کے حقوق کا خیال رکھنا ہے۔ جہانگیر ترین اور نواز شریف کو سوموٹو اختیار کے تحت نوٹس جاری کیے۔معلوم تھا کہ دونوں افراد فیصلے سے متاثر ہوں گے۔
درخواست گزار سمیع بلوچ کے وکیل بابر اعوان نے دلائل میں حدیبیہ کیس کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ حدیبیہ کا فیصلہ کچھ اور کہتا ہےاور فوجداری قانون کچھ اور۔ عدالت کو حدیبیہ فیصلے کا بھی جائزہ لینا ہو گا جس میں کہا گیا ہے کہ طویل عرصے تک سزا نہ ہونا بری ہونے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ آپشن بھی ہو سکتا ہے کہ عدالت عوامی نوٹس جاری کرے۔ دوسرا آپشن ہے کہ اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا جائے۔
چیف جسٹس نے سینئر وکیل منیر اے ملک سے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالتی معاون بن سکتے ہیں۔ آپ ان مقدمات میں ملوث تو نہیں؟ منیر ملک نے جواب دیا کہ آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔
اس پر عدالت نے منیر اے ملک اور سینئر وکیل علی ظفر کو عدالتی معاون مقرر کرتے ہوئے آرٹیکل 62 کے دیگر متاثرین کو بھی نوٹس جاری کردیا۔
منگل کی سماعت میں میاں نوازشریف کی طرف سے کوئی بھی پیش نہ ہوا جس پر چیف جسٹس نے میاں نواز شریف کو دوبارہ نوٹس جاری کر دیا۔
بابر اعوان نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 227 میں اسلامی اقدار اور اچھے کردار کا ذکر کیا گیا۔ آرٹیکل 227 کی خلاف ورزی پر ڈکلیئریشن کی ضرورت نہیں۔
بابر اعوان کا کہنا تھا کہ نظریۂ پاکستان کا آئین میں دو جگہوں پر ذکر ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نظریۂ پاکستان کا مخالف آئین کے تحت نااہل ہوگا؟
بابر اعوان نے کہا کہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کو افغانستان کا حصہ کہنے والا اور اس کی آزادی کی بات کرنے والا بھی نااہل تصور کیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ سے نااہل ہونے والوں کی دو اقسام ہیں۔ ایک وہ جو کسی قانون کے تحت نااہل ہوتے ہیں اور دوسرے وہ جو آئین کے تحت نااہل ہوتے ہیں۔ اس پر بابر اعوان نے کہا کہ اس کی تیسری قسم بھی ہے جس میں لوگ آئین کے تحت بنے قوانین سے نااہل ہوتے ہیں۔
بابر اعوان نے عدالت میں کہا کہ عدالت کو حدیبیہ فیصلے کا بھی جائزہ لینا ہوگا جس میں ان کے بقول حدیبیہ فیصلہ کچھ کہتا ہے اور قانون کچھ اور کہتا ہے جب کہ برے کردار پر بھی کوئی شخص نااہل ہوسکتا ہے۔
جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ امیدوار کی اہلیت مخالف امیدوار چیلنج کرے گا، ریٹرننگ آفیسر کردار کاتعین کیسے کرے گا کیونکہ اس کے پاس اس بات کے تعین کے لیے عدالتی فیصلہ یامواد ہوناچاہیے۔
جسٹس عمرعطاء بندیال نے استفسار کیا کہ کیا صادق اور امین غیر مسلموں کے لیے بھی شرط ہے جس پر بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ آئینِ پاکستان کا ہر لفظ اپنی اپنی ڈاکٹرائن رکھتا ہے لیکن اقلیتی امیدواروں کا بھی اچھا کردار ہونا ضروری ہے۔
بابر اعوان کا مزید کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے آرٹیکل 62 میں کبھی تبدیلی نہیں کی جس کا مطلب ہے آرٹیکل 62 پر پارلیمنٹ رضامند ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ واضح طور پر بتایا جائے کہ درخواست گزار کا موقف کیا ہے؟ کیا نا اہلی ایک مدت کے لیے ہوگی یا تاحیات؟کیونکہ اگر نا اہلی تاحیات ہوگی تو سیاسی مستقبل ختم ہوجائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے سوال نا اہلی کی مدت کا ہے اور اگر نااہلی تاحیات نہیں ہو تو الیکشن لڑنا نااہل شخص کا حق ہے۔
سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے معاملے پر عوامی نوٹس بھی جاری کردیا ہے جس کے مطابق اگر کسی بھی سیاسی جماعت کا سربراہ یا ووٹر عدالتی فیصلے سے متاثر ہوا ہے تو وہ سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔ متاثرہ شخص کی جانب سے عدالت سے رجوع نہ کرنے پر یک طرفہ فیصلہ دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور اس کے بعد ایک دوسرے مقدمے میں حزبِ مخالف کی جماعت تحریکِ انصاف کے سابق سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہل قرار دے چکی ہے۔
جب نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا تھا تو اس وقت بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا گیا تھا کہ 62 ون ایف کے تحت نا اہل قرار دیے جانے کا مطلب انتخابات میں لڑنے پر تاحیات پابندی ہے۔
البتہ عدالت کے فیصلے میں اس کی تشریح نہیں کی گئی تھی اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی تشریح ہونا ابھی باقی ہے۔
واضح رہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 پارلیمان کا رکن بننے کی اہلیت سے متعلق ہیں اور ان میں درج ہے کہ وہ ہی رکن پارلیمنٹ کا حصہ بن سکتا ہے جو نہ صرف اچھے کردار کا مالک ہو بلکہ اسلامی شعائر کے مطابق اپنے فرائض انجام دیتا ہو اور اسے اسلامی تعلیمات کا بھی مناسب علم ہو۔
ان شقوں کے مطابق پارلیمان کی رکنیت کے امیدوار کے لیے صادق اور امین ہونا بھی ضروری ہے۔
کئی سیاسی حلقے ان شقوں پر اعتراضات کرتے رہے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ صادق اور امین کی طے شدہ تعریف نہ ہونے سے پیدا ہونے والے ابہام کے باعث یہ شقیں ارکانِ پارلیمان کے خلاف استعمال کی جاسکتی ہیں۔