سپریم کورٹ آف پاکستان نے سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسٰی سمیت دیگر تمام دائر درخواستیں ابتدائی سماعت کے لیے منظور کر لی ہیں۔
عدالت نے وفاقی حکومت، صدر مملکت اور وزیرِ اعظم سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی سمیت مختلف بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف دائر درخواستوں پر جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
دورانِ سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ درخواستوں میں اہم قانونی نکات اٹھائے گئے ہیں۔ یہ کیس صرف بار ایسوسی ایشنز کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمارے لیے بھی بے چینی کا باعث ہے۔
سماعت کے موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے وکیل منیر اے ملک خرابیٔ صحت جب کہ جسٹس منصور علی شاہ چھٹی پر ہونے کے باعث عدالت میں پیش نہیں ہو سکے۔
سماعت شروع ہونے پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سماعت پر معزز جج اور منیر اے ملک بھی دستیاب ہوں گے۔ یہ انتہائی اہم نوعیت کا مقدمہ ہے، آئین اور حلف کے مطابق اس کا فیصلہ کریں گے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف دائر تمام درخواستوں میں تقریباً 70 فی صد مواد ایک جیسا ہے۔ لہٰذا، سب درخواستوں کی سماعت ایک ساتھ ہو گی۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ تمام ججز ترجیحی بنیادوں پر یہ کیس سن رہے ہیں اسے زیادہ دیر تک التواء میں نہیں رکھیں گے۔
دورانِ سماعت سپریم کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کو روسٹرم پر بلاتے ہوئے کہا کہ ہم اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ آئندہ سماعت سے ایک ہفتہ پہلے جواب جمع کرائیں۔
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے درخواست گزار دلائل دیں پھر ہم تحریری طور پر اپنے دلائل دیں گے۔
عدالت نے تمام درخواستوں کو ابتدائی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے تمام وکلاء کو بھرپور تیاری کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت کر دی ہے۔
سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت، صدر مملکت، وزیرِ اعظم، وزیرِ قانون، وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر، سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری سمیت تمام فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔ عدالت نے تمام فریقین سے جواب طلب کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت 8 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
واضح رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے خلاف ریفرنس کو چیلنج کیا تھا اور عدالتِ عظمیٰ سے اس معاملے پر فل کورٹ بنانے کی استدعا کی تھی۔
انہوں نے اپنی درخواست میں فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔
اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا تھا کہ وہ کسی بھی ریفرنس کا سامنا کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ وہ قانون کے مطابق ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ ریفرنس کی سماعت کرنے والی سپریم جوڈیشل کونسل منصفانہ سماعت کی ساکھ کھو چکی ہے۔
سپریم کورٹ میں اس مقدمے سے متعلق گزشتہ سماعت کے دوران سات رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی درخواست سنی تھی۔ اس بینچ میں جسٹس عمر عطاء بندیال کے علاوہ جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس طارق مسعود، جسٹس فیصل عارب، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظہر عالم شامل تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے وکیل منیر اے ملک نے کچھ ججز پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اس بینچ کے دو جج ممکنہ طور پر چیف جسٹس بنیں گے۔ لہٰذا مفادات کے ٹکراؤ کا معاملہ بھی ہو سکتا ہے۔
بعد ازاں جسٹس طارق مسعود نے کہا تھا کہ ہم پہلے ہی ذہن بنا چکے تھے کہ بینچ میں نہیں بیٹھنا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی ریمارکس دیے تھے کہ ہمارے ساتھی جج کی جانب سے ہمارے بارے میں تحفظات افسوس ناک ہیں۔
سپریم کورٹ کے دونوں ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سردار طارق مسعود نے بینچ سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس کے باعث بینچ تحلیل ہو گیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے 20 ستمبر کو جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی درخواست پر سماعت کے لیے نیا 10 رکنی فل کورٹ بینچ تشکیل دیا تھا۔