سپریم کورٹ نے اسلام آباد کی احتساب عدالت کو سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنسز کا فیصلہ 24 دسمبر تک سنانے کا حکم دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ حکم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کی مدت میں آٹھویں بار توسیع کے لیے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی درخواست پر جمعے کو ہونے والی سماعت کے بعد سنایا۔
دورانِ سماعت جج کی درخواست پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ دونوں ریفرنسز پر بحث کہاں تک پہنچی؟ بحث کا وقت ہوتا ہے۔ الف لیلیٰ کی کہانی تو بیان نہیں کرنی ہوتی۔ آپ نے ساری قوم اور عدلیہ کو محصور بنا کر رکھا ہوا ہے۔ یہ ہے آپ کی وکالت؟ کیوں معاملہ لٹکا رہے ہیں؟ کیسے بڑے وکیل ہیں آپ؟ اگر آپ وقت پر کام مکمل نہیں کرسکتے تو کیس لیا ہی نہ کریں۔ آپ مقررہ مدت تک اپنی بحث مکمل کریں۔
خواجہ حارث نے جواب میں کہا کہ میں کوئی بڑا وکیل نہیں۔ کیا کسی نے یہ شکایت کی کہ ہم معاملے کو لمبا کر رہے ہیں؟ اگر آپ کو ایسا لگتا ہے تو مقدمہ چھوڑ دیتا ہوں۔ میرے خیال سے یہ کہنا مناسب نہیں ہے کہ میں معاملہ کھینچ رہا ہوں۔ میرا انرجی لیول آپ جیسا نہیں ہے۔ عدالت کہتی ہے تو میں بحث چھوڑ دیتا ہوں۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا رویہ ہی ایسا ہے۔ ہر بات پر آپ ناراض ہو کر بائیکاٹ کر دیتے ہیں۔ آپ کو ہفتہ اتوار کو دلائل دینے پر بھی اعتراض تھا۔ آپ کو پتا ہے میں کیسے کام کرتا ہوں؟ اب آپ کیس چھوڑنے کی بات کر رہے ہیں، یہ بھی تاخیری حربہ ہے۔ اپنی عدلیہ کو تباہ نہیں ہونے دوں گا۔ ہمیں بتا دیں کب تک بحث ختم ہوگی؟
خواجہ حارث نے کہا کہ میں 17 دسمبر تک بحث مکمل کرلوں گا۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب ہم نے آپ کی بات مان لی ہے۔ اب آپ بھی اس مقدمے کو جلد نمٹانے کی کوشش کریں۔ سترہ دسمبر تک دلائل مکمل کرلیں۔ احتساب عدالت کو فیصلہ لکھنے کے لیے چار دن دے رہے ہیں۔ احتساب عدالت 24 دسمبر تک فیصلہ سنائے۔
سپریم کورٹ کے پاناما کیس میں فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے متعلق تین ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے تھے۔ ان میں سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں نواز شریف، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو سزا ہوچکی ہے جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز کیس اور ہل میٹل اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت ابھی جاری ہے۔
'نیب کو ہم بھگت چکے، اب باقی بھی بھگتیں'
دریں اثنا سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ نیب کا قانون ہی غلط ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ نیب جس طرح ہے، اسی طرح رہنا چاہیے کیوں کہ ان کے بقول اس ادارے کو ہم توبھگت چکے ہیں، اب باقی بھی بھگتیں۔
جمعے کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ نیب کا قانون انہوں نے نہیں بلکہ پرویز مشرف نے بنایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ نیب عمران خان کے ہیلی کاپٹر کا بھی احتساب کرے اور عمران خان کے باقی خاندان کے ذرائع آمدن کا بھی حساب لے۔
ایک سوال کے جواب میں سابق وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ان کے دورِ حکومت کے چار سال میں ڈالر اتنا نہیں بڑھا جتنا اس حکومت کے چند ماہ میں بڑھ گیا ہے۔ ملکی معیشت کے لیے کرنسی مستحکم ہونی چاہیے۔
نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ ڈالرکی قدر بڑھے اور وزیرِ اعظم کو پتہ ہی نہ ہو۔ ہمارے دور میں میرے فیصلے کے بغیر ڈالر 10 پیسے بھی نہیں بڑھا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ کہ ڈالر کو نچلی سطح پر رکھنے کے لیے مصنوعی طریقۂ کار کیا ہے۔ اگر ہم نے ڈالر کو نیچے رکھنے کے لیے مصنوعی طریقہ اختیار کیا تھا تو موجودہ حکومت بھی کر لے۔
سابق وزیرِ اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ملکی معیشت یو ٹرن سے نہیں سچ بولنے اور کام کرنے سے مستحکم ہوتی ہے اور ملکی معیشت موجودہ حکومت کے سوا ہر چیز کی متحمل ہو سکتی ہے۔
اپنی خاموشی سے متعلق سوال پر نواز شریف نے کہا کہ ذاتی وجوہات کی بنا پر دل نہیں کرتا کہ کچھ بولوں۔ شہباز شریف کے خلاف تفتیش میں کیا نکلا؟ آج نہیں تو کل قوم اس کا جواب مانگے گی۔ شہبازشریف کو ڈھائی مہینے کیوں بند رکھا؟ جس شخص نے دن رات محنت کی اس کو یہ صلہ دیا۔ شہبازشریف کے کام کا میں گواہ ہوں کیونکہ 60 سال سے ہم ساتھ ہیں۔