شام میں سیکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان تصادم میں کم از کم 22 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شاہدین کا کہنا ہے کہ 10 افراد جمعہ کو شمال مغربی صوبے ادلیب میں ہلاک ہوئے۔ جبکہ سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ ایک مسلح گروپ نے صوبائی شہر معرات لانعمان میں سیکیوریٹی فورسز پر حملہ کرکے کئی سرکاری عمارتوں کو آگ لگادی۔
اسکے علاوہ شاہدین اور باغیوں کا کہنا ہے کہ حکومتی فورسز نے جمعہ کو فائرنگ کرکے کئی مظاہرین کو ہلاک کردیا۔
ترکی سے آنے والی اخباری اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ ترکی کی سرحد کراس کرنے والوں کی تعداد اب 3000 ہوگئ ہے۔
دریں اثناء شام کے جمہوریت پسندوں کی جانب سے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف جمعہ کے روز نئے احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ مارچ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران حکومتی فورسز کے تشدد سے اب تک 11 سو کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ 10 ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔
جینوا میں عالمی امدادی تنظیم 'ریڈ کراس' نے شامی حکومت سے زخمی اور حراست میں لیے گئے حزبِ مخالف کے ارکان تک تنظیم کو "بامعنی رسائی" دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
جمعہ کے روز ترکی کے وزیرِاعظم رجب طیب اردگان کا یہ بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ چند روز کے دوران شامی رہنما سے بات چیت کے دوران ان پر زور دیا ہے کہ وہ اپنی حکومت میں اصلاحات متعارف کرائیں۔
ترک وزیرِاعظم نے اپنے بیان میں شامی سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کو "ناقابلِ قبول " قرار دیتے ہوئے ہلاک ہونے والی شامی خواتین کی لاشوں کی بے حرمتی کو بھی "وحشیانہ عمل" قراردیا۔