شام کی حکومت اور سرگرم کارکنوں نے کہاہے حمص میں، جو ایک عرصے سے عوامی مظاہروں اور احتجاج کا اہم مرکز بنا ہواہے، حالیہ دنوں میں درجنوں خواتین اور بچوں کو ہلاک کیا ۔ جب کہ دونوں فریقوں نے ان ہلاکتوں کا الزام ایک دوسرے پر عائد کیا ہے۔
شام کے سرگرم کارکنوں کا کہناہے کہ انہوں نے شورش زدہ شہر حمص میں عورتوں اور بچوں کی کم ازکم 45 نعشیں دیکھی ہیں۔سرگرم کارکنوں کے مطابق کئی نعشیں بری حالت میں تھیں اور کئی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی۔ انہوں نے قتل کے ان واقعات کی ذمہ داری حکومت نواز فورسز پر عائد کی ہے۔
شام کے عہدے داروں نے ہلاکتوں کی تصدیق تو کی ہے لیکن انہوں نے اس کا الزام مسلح دہشت گردوں پر لگایا ہے۔
پابندیوں کے باعث آزاد ذرائع سے ان ہلاکتوں کی تصدیق ممکن نہیں ہے۔
مبینہ ہلاکتوں کی اطلاعات ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آئی ہیں جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے غیر ملکی وزراء ، شام میں اقوام متحدہ کے امن مشن کی ناکامی کے بعد نیویارک میں اجلاس کی تیاری کررہے ہیں۔
برطانیہ نے مشرق وسطیٰ میں ایک سال سے جاری شورش کے بعد اس پر مذاکرات کے لیے اجلاس کی اپیل کی تھی۔ لیکن سفارت کاروں کا خیال ہے کہ شام میں جاری تشدد اس کانفرنس میں حاوی رہے گا۔کانفرنس میں امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن بھی شرکت کررہی ہیں۔
اس سے قبل روس اور چین شام کی حکومت کی جانب سے اپنے مخالفین کی مہلک پکڑدھکڑ کی مذمت پر مبنی اقوام متحدہ کی قراردار کو ویٹو کرچکے ہیں۔ ان کا کہناہے کہ اس طرح کی قراردار شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
اقوام متحدہ کے عہدے داروں کا اندازہ ہے کہ ایک سال سے جاری اس تشدد میں 7500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
شام کے صدر بشارالاسد تشدد کے واقعات کا الزام ان دہشت گردوں پر لگاتے ہیں جنہیں بقول ان کے غیرملکی حمایت حاصل ہے اور ان کا کہناہے کہ ان عناصر کے ساتھ سیاسی تصفیہ ممکن نہیں ہے۔