ایک شامی اہل کار نے پیر کے روز اس بات کی قطعی تردید کی کہ ملک کی چار سالہ خانہ جنگی کے دوران کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔
معاون وزیر خارجہ، فیصل مقدد نے کیمیائی ہتھیاروں پر ممانعت پر مامور ادارے کو بتایا کہ ’ہم یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ شام کے عرب جمہوریہ میں کسی واقعے یا کسی کارروائی کے دوران، اس بحران کے آغاز سے اب تک، کبھی کلورین یا دیگر زہریلے کیمیائی مواد استعمال نہیں کیا‘۔
سنہ 2013 میں تنظیم میں شمولیت کے بعد، شام نےکیمیائی ہتھیاروں کے اعلان کردہ 1300 ٹن کے ذخیرے میں سے 99 فی صد سے زائد کو تلف کیا گیا تھا۔ تاہم، یورپی یونین کے ایلچی نے پیر کے روز ہیگ میں منعقدہ سالانہ اجلاس میں شام کی مذمت کی جس نے، بقول اُن کے، ’تنظیم کے سامنےکیمائی ہتھیاروں کے ذخیرے کے اعلان میں تضادات اور کمی بیشی نظر آئی۔ یہ ادارہ زہریلے ہتھیاروں کو تلف کرنے کے کام کی نگرانی کرتا ہے‘۔
لگزمبرگ سے تعلق رکھنے والے، جیک بلیکا نے اس بات پر عدم اعتماد کا اظہار کیا کہ شامی صدر بشار الأسد کی انتظامیہ نے تمام ذخیرہ تلف کردیا ہے۔
سنہ 2013 میں دمشق کے مضافات، غوطہ میں مہلک کیمیائی حملے کے بعد شام پر بین الاقوامی دباؤ بڑھا کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں پر ممانعت سے متعلق تنظیم میں شمولیت اختیار کرے۔ حکومت شام اور باغیوں نے اس حملے کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دیا، جس میں سینکڑوں افراد قتل ہوئے۔
ادارے سے وابستہ ایک ٹیم شام کے اعلانات کا جائزہ لے رہی ہے۔