شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی کوفی عنان کے پیش کردہ امن منصوبے پر عمل درآمد کے لیے فضا ہموار کرنے کی غرض سے مشن کے رضاکاروں کا ایک ابتدائی وفد شام پہنچ گیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کا کہنا ہے کہ امن رضاکاروں کا وفد جمعرات کو دمشق پہنچا ہے۔ اس سے قبل کوفی عنان کے ایک ترجمان نے کہا تھاکہ جنگ بندی کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے شامی حکومت نے تشدد سے متاثرہ علاقوں سے فوجی دستوں کا انخلا شروع کردیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سابق سربراہ کے ترجمان احمد فوزی نے صحافیوں کو بتایا کہ شام پہنچنے والا رضاکاروں کا وفد اتفاقِ رائے سے طے کردہ 10 اپریل کی ڈیڈ لائن سے قبل ملک میں پرتشدد واقعات کی مکمل روک تھام کے لیے فضا ہموار کرے گا۔
حکومت مخالف علاقوں پر شامی سیکیورٹی فورسز کی بمباری جاری رہنے کی اطلاعات کے باوجود ترجمان کا کہنا تھا کہ دمشق حکومت نے کوفی عنان کی جانب سے پیش کردہ چھ نکاتی امن منصوبے پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانی کرا رکھی ہے۔
دریں اثنا انسانی حقوق کے کارکنوں نے جمعرات کو دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے دوما میں بمباری اور دو بدو لڑائی چھڑنے کا دعویٰ کیا ہے کہ جب کہ ترک سرحد سے منسلک شمالی صوبے حلب سے بھی لڑائی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
ادھر ترک حکام نے کہا ہے کہ گزشتہ دو روز کے دوران میں 1600 سے زائد شامی پناہ گزینوں نے ترکی کی سرحد پار کی ہے۔
دریں اثنا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ارکان ایک ایسے بیان کے مسودے پر غور کر رہے ہیں جس میں مجوزہ امن منصوبے پر شامی حکومت کی جانب سے اب تک عمل نہ کرنے پر "شدید تحفظات" ظاہر کیے گئے ہیں۔
'وائس آف امریکہ' نے مجوزہ بیان کا مسودہ حاصل کیا ہے جس میں سلامتی کونسل نے صدر بشار الاسد کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری اور یقینی طور پر بھاری ہتھیاروں کا استعمال بند کرے اور آبادیوں سے فوجی دستوں کو نکالے۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ مذکورہ بیان جمعرات کو منظور کیا جاسکتا ہے۔
ادھر کوفی عنان بھی جمعرات کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کو شام کے بحران کے حل کے لیے کی جانے والی اپنی کوششوں سےآگاہ کریں گے۔عالمی ادارے کے سابق سربراہ کے ترجمان کا کہنا ہے وہ 11 اپریل کو ایران جائیں گے جو شامی حکومت کا اہم اتحادی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے بقول شام میں گزشتہ ایک برس سے جاری حکومت مخالف پرتشدد تحریک کے دوران میں اب تک نو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔