شام کے صدر بشار الاسد نے کہا ہے کہ ’’تخریب کار‘‘ اصلاحات کے جائز مطالبات کا غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ کہ ان کے ملک میں غارت گری کے ذریعے کوئی اصلاحات نہیں کی جاسکتیں۔
پیر کو ٹیلی ویژن کے ذریعے قوم سے خطاب میں صدر کا کہنا تھا کہ استحکام کے بغیر شام میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکتی۔
مارچ کے وسط سے جاری حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے دوران یہ ان کا تیسرا خطاب تھا۔
تقریر سے قبل برطانوی وزیر خارجہ ویلیم ہیگ نے مسٹر اسد سے کہا کہ وہ یا تو اصلاحات کریں یا پھر اقتدار سے علیحدہ ہوجائیں۔ مسٹر ہیگ نے امید ظاہر کی کہ ترکی اپنے پڑوسی ملک پر زور ڈالے گا اور صدر اسد سے کہے گا وہ قانونی جواز کھورہے ہیں۔
احتجاجی تحریک کے آغاز کے دو ہفتے بعد اپنے پہلے خطاب میں شام کے صدر نے غیرملکیوں پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ان کی حکومت گرانے کی سازش کر رہے ہیں۔اپریل کے وسط میں کیے گئے اپنے دوسرے خطاب میں صدر بشار الاسد نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ ان کی حکومت ملک میں گزشتہ 50 برسوں سے نافذ ہنگامی حالت اٹھا لے گی۔
انہوں نے اپنے اس خطاب میں کابینہ پر بھی زور دیا تھا کہ وہ ملک میں ملازمتوں کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے اقدامات پر غور کرے۔
شامی صدر کے تازہ خطاب کا اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب شامی افواج کے دستے حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف جاری کریک ڈاؤن سے بچ کر ترکی فرارہونے والے ہزاروں افراد کی مدد کرنے والے ایک سرحدی گاؤں کے رہائشیوں کے خلاف کاروائی کر رہے ہیں۔
مہاجرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ فوجی اہلکاروں نے بداما نامی گاؤں میں فصلوں اور عمارتوں کو نذرِ آتش کردیا ہے جبکہ گاؤں کی واحد بیکری کو بھی بند کردیا گیاہے۔ عینی شاہدین کے بقول فوج کی جانب سے علاقے میں چوکیاں قائم کی جارہی ہیں تاکہ شامی باشندوں کو ترکی فرار ہونے سے روکا جاسکے۔
واضح رہے کہ اب تک 10 ہزار سے زائد شامی باشندے ترکی میں پناہ حاصل کرچکے ہیں جنہیں ترک حکومت کی جانب سے سرحد کے ساتھ قائم کردہ عارضی کیمپوں میں ٹہرایا گیا ہے۔