شام میں مظاہرین کی گرفتاریوں کے خلاف عینی شاہدین کے مطابق بدھ کو سینکڑوں خواتین نے ایک مرکزی ساحلی شاہراہ کو احتجاجاً بند کردیا ۔
یہ خواتین تارطوس اور بنی آس شہروں کو ملانے والی شاہراہ پر جمع ہوئیں اور ان کا مطالبہ تھا کہ قریبی علاقوں سے گرفتار کیے گئے سینکڑوں افراد کو رہا کیا جائے۔
شام کے فوجیوں اور حکومت کے حامی مسلح افراد نے ایک روز قبل بائدہ نامی گاؤں پر دھاوا بولتے ہوئے تقریباً دو سو افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے وکلاء اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز اور بشارالاسد کے وفاداروں نے گاؤں کی ناکہ بندی کرکے گھر گھر تلاشی لی۔
اتوار کو بھی سکیورٹی فورسز نے بنی آس کا گھیراؤ کرکے حکومت مخالف چار مظاہرین کو ہلاک اور درجنوں کو زخمی کردیا تھا۔
منگل کو انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے کہا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے زخمی مظاہرین کو طبی امداد حاصل کرنے سے بھی روکا۔
شام کی وزارت داخلہ نے بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں اس الزام کو ”بے بنیاد‘ ‘قرار دیتے ہوئے زخمیوں کو لے جانے والی ایمبولینس پر حملے کا ذمہ دار نامعلوم مسلح افراد کو ٹھہرایا ہے۔
وائٹ ہاؤس بھی شامی حکومت پر زخمیوں کو طبی امداد فراہم نہ کرنے کی اطلاعات پر تحفظات کا اظہار کرچکا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ حکومتی کریک ڈاؤن ”ظالمانہ“ اقدام ہے۔
شام میں حکومت مخالف مظاہرے گذشتہ ماہ شروع ہوئے تھے اور ملک میں پھیلتے جارہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اب تک ان مظاہروں میں دو سو کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
یہ مظاہرین سیاسی اصلاحات ، خصوصاً ملک میں کئی دہائیوں سے نافذ ہنگامی حالت کے خاتمے، کا مطالبہ کررہے ہیں ۔