اطلاعات کے مطابق شام میں فوجی دستے ٹینکوں اور توپ خانے سے شدید گولہ باری کرتے ہوئے شمالی شہر جسز الشغور میں داخل ہو گئے ہیں۔
فوجیوں نے شہر کے مختلف حصوں پر قبضہ کر لیا ہے جب کہ بعض علاقوں میں شدید لڑائی جاری ہے۔
سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ فوجی دستوں نے ’’مسلح گروہوں‘‘ کی طرف سے سڑکوں اور پلوں پر نصب کیے گئے بموں کو ناکارہ بنانے کے علاوہ مقامی ہسپتال سے مسلح افراد کا صفایا بھی کر دیا ہے۔
جسر الشغور میں موجود باغیوں کے ایک افسر حسین ہارموس (Hussein Harmoush) نے الجزیرہ ٹی وی کو بتایا ہے کہ لڑائی میں شامل کسی باغی نے بھی ہتھیار نہیں ڈالے ہیں۔
باغی افسر کا کہنا تھا کہ اُن کے ساتھیوں نے فوج کی پیش قدمی میں رکاوٹ ڈالنے اور شہریوں کو علاقہ چھوڑنے میں مدد کے لیے مختلف مقامات پر بم نصب کیے ہیں۔
ویڈیو اور عینی شاہدین کے مطابق جسر الشغور میں جاری آپریشن میں شامی حکومت نے مسلسل تیسرے روز ہیلی کاپٹر گن شپس کا بھرپور استعمال کیا۔ متعدد عینی شاہدین نے بتایا کہ ہیلی کاپٹروں نے فرار ہوتے ہوئے شہریوں کو بھی نشانہ بنایا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک شامی کارکن نے العریبیہ ٹی وی کو بتایا کہ اِدلِب کے علاقے میں، جہاں جسر الشغور بھی واقع ہے، بغاوت کو کچلنے کے لیے 10 ہزار شامی فوجی تعینات کیے گئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہزاروں شہری یہ علاقہ چھوڑ کر ترکی میں داخل ہو چکے ہیں۔
شامی ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ اِدلِب میں ایک اجتماعی قبر دریافت ہوئی ہے جس میں مسلح گروہوں کے ہاتھوں مارے گئے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو دفنایا گیا ہے۔
اس دعویٰ کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں کیوں کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے بیشتر نمائندوں کو شام میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔