واشنگٹن —
شام کی حکومت نے اپنے خلاف لڑنے والے باغیوں کو ملک کے سب سے بڑے شہر حلب میں جنگ بند کرنے اور قیدیوں کے تبادلے کی پیش کش کی ہے۔
اس پیش کش کا اعلان شام کے وزیرِ خارجہ ولید المعلم نے جمعے کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں کیا۔
شامی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ انہوں نے یہ پیش کش شام کےبحران پر غور کے لیے آئندہ ہفتے جنیوا میں ہونے والی عالمی کانفرنس کے تناظر میں کی ہے تاکہ فریقین کو مسئلے کے حل کے لیے سازگار ماحول مہیا ہوسکے۔
انہوں نے بتایا کہ شامی حکومت نے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق اپنا منصوبہ روس کے حوالے کردیا ہے تاکہ اسے باغیوں کی قیادت کے سامنے پیش کیا جاسکے۔
دمشق حکومت کی جانب سے یہ تجویز ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب شامی حزبِ اختلاف کے مرکزی اتحاد 'سیرین نیشنل کولیشن' کا ایک اہم اجلاس ترکی کے شہر استنبول میں جاری ہے جس میں حزبِ اختلاف کے رہنماآئندہ ہفتے ہونے والی کانفرنس میں شریک ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کریں گے۔
ماضی میں شامی حزبِ اختلاف کے رہنما شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کی یقین دہانی کرائے جانے تک عالمی کوششوں سے ہونے والے اس مذاکراتی عمل کا حصہ بننے سے انکار کرتے آئے ہیں۔
تاہم مجوزہ کانفرنس میں شرکت کے لیے 'سیرین نیشنل کولیشن' پر امریکہ اور مغربی ممالک کا سخت دباؤ ہے جو شامی حزبِ اختلاف کے اس اتحاد کو "شامی عوام کا جائز نمائندہ" تسلیم کرتے ہیں۔
مجوزہ کانفرنس کا مقصد شام کے بحران کے فریقین کو ایک عبوری حکومت کے قیام پر متفق کرنا ہے جو ملک میں عام انتخابات کرانے کی ذمہ دار ہوگی۔
جمعے کو ماسکو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شام کے وزیرِ خارجہ نے تصدیق کی کہ ان کی حکومت 22 جنوری سے ہونے والی کانفرنس میں شریک ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت سمجھتی ہے کہ پرامن تصفیہ ہی شام میں جاری بحران کے حل کا واحد راستہ ہے اور اسی لیے ان کی حکومت کا وفد کانفرنس میں شریک ہوگا۔
ولید المعلم نے امریکہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ شام میں خانہ جنگی کے دوران "دہشت گرد گروہوں کو مدد" فراہم کررہا ہے۔
خیال رہے کہ شام کی حکومت اپنے خلاف لڑنے والی تمام مسلح باغیوں کو "دہشت گرد" گردانتی ہے اور اس کی کوشش رہی ہے کہ جنیوا کانفرنس میں ہونے والے مذاکرات کا رخ عبوری حکومت کے قیام کے بجائے شدت پسندی پر قابو پانے کی کوششوں کی جانب موڑا جاسکے۔
اس پیش کش کا اعلان شام کے وزیرِ خارجہ ولید المعلم نے جمعے کو روس کے دارالحکومت ماسکو میں کیا۔
شامی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ انہوں نے یہ پیش کش شام کےبحران پر غور کے لیے آئندہ ہفتے جنیوا میں ہونے والی عالمی کانفرنس کے تناظر میں کی ہے تاکہ فریقین کو مسئلے کے حل کے لیے سازگار ماحول مہیا ہوسکے۔
انہوں نے بتایا کہ شامی حکومت نے جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے سے متعلق اپنا منصوبہ روس کے حوالے کردیا ہے تاکہ اسے باغیوں کی قیادت کے سامنے پیش کیا جاسکے۔
دمشق حکومت کی جانب سے یہ تجویز ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب شامی حزبِ اختلاف کے مرکزی اتحاد 'سیرین نیشنل کولیشن' کا ایک اہم اجلاس ترکی کے شہر استنبول میں جاری ہے جس میں حزبِ اختلاف کے رہنماآئندہ ہفتے ہونے والی کانفرنس میں شریک ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کریں گے۔
ماضی میں شامی حزبِ اختلاف کے رہنما شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کی یقین دہانی کرائے جانے تک عالمی کوششوں سے ہونے والے اس مذاکراتی عمل کا حصہ بننے سے انکار کرتے آئے ہیں۔
تاہم مجوزہ کانفرنس میں شرکت کے لیے 'سیرین نیشنل کولیشن' پر امریکہ اور مغربی ممالک کا سخت دباؤ ہے جو شامی حزبِ اختلاف کے اس اتحاد کو "شامی عوام کا جائز نمائندہ" تسلیم کرتے ہیں۔
مجوزہ کانفرنس کا مقصد شام کے بحران کے فریقین کو ایک عبوری حکومت کے قیام پر متفق کرنا ہے جو ملک میں عام انتخابات کرانے کی ذمہ دار ہوگی۔
جمعے کو ماسکو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے شام کے وزیرِ خارجہ نے تصدیق کی کہ ان کی حکومت 22 جنوری سے ہونے والی کانفرنس میں شریک ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت سمجھتی ہے کہ پرامن تصفیہ ہی شام میں جاری بحران کے حل کا واحد راستہ ہے اور اسی لیے ان کی حکومت کا وفد کانفرنس میں شریک ہوگا۔
ولید المعلم نے امریکہ پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ وہ شام میں خانہ جنگی کے دوران "دہشت گرد گروہوں کو مدد" فراہم کررہا ہے۔
خیال رہے کہ شام کی حکومت اپنے خلاف لڑنے والی تمام مسلح باغیوں کو "دہشت گرد" گردانتی ہے اور اس کی کوشش رہی ہے کہ جنیوا کانفرنس میں ہونے والے مذاکرات کا رخ عبوری حکومت کے قیام کے بجائے شدت پسندی پر قابو پانے کی کوششوں کی جانب موڑا جاسکے۔