اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام میں 300 تک غیر مسلح مبصرین کے مشن کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے، جہاں ٕ دو ہفتے کی جنگ بندی کے دوران حکومت اور مخالف فوجوں کے درمیان ہلاکت خیزتشدد کی کارروائیاں سامنے آئی ہیں۔
کونسل نے ہفتے کو ایک متفقہ قرارداد منظور کی جِس کی رو سےاقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون کو یہ اختیارحاصل ہے کہ وہ اس بات کا ’جائزہ‘ لیں آیا حفاظت کے اعتبار سے تعیناتی کا معاملہ قابل عمل ہوگا۔ جائزہ لیتے وقت وہ شام میں رونما حقائق کو مدِ نظر رکھیں گے جِن میں تشدد کا خاتمہ شامل ہے۔
حکومتِ شام اور مخالفین نے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے ایلچی کوفی عنان کے توسط سے پیش کردہ امن منصوبے کے ایک حصے کے طور پر جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔
لیکن، حکومت اور اپوزیشن بارہا ایک دوسرے پر سمجھوتے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔
مخالف ’سیریئن روولوشن جنرل کمیشن‘ کا کہنا ہے کہ آمرانہ قیادت کی طرف سے گولیاں چلانے کے نتیجے میں ہفتے کو شام میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوئے۔ سرگرم کارکنوں کا مزید کہنا ہے کہ دارالحکومت کے قریب ایک فوجی ہوائی اڈے کو دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا۔
دریں اثنا، حکومت نے کہا ہے کہ ہفتے کو مشرقی دیارالزعور صوبے میں’مسلح دہشت گردوں‘ نے ایک پائپ لائن کے قریب دھماکا خیز مواد نصب کیا۔ حکومت نےگذشتہ چند دِنوں کے دوران سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں کےسلسلے کا ذمہ دار مسلح گروپوں کو قرار دیا ہے۔
اِس سے قبل، سلامتی کونسل نے 30مبصرین کا ایک پیشگی دستہ تعینات کرنے کی منظوری دی تھی، تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عالمی ادارے کے مشن کو اپنا کام سرانجام دینے کے لیے مزید بہت سے مبصرین کی ضرورت پیش آئے گی۔
شام کی سرکاری صنعا نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ مبصرین نے ہفتے کے دِن تشدد کے شکار حمص شہرکا دورہ کیا، جہاں وہ خطے کے گورنر سے ملے اور کئی مضافات کا دورہ کیا۔
ایک ہفتے سے زائد دِنوں سے حکومت حمص کے علاقے میں بھاری توب خانے سے گولہ باری کرتی رہی ہے۔