شام میں احتجاجی تحریک کا مرکز سمجھے جانے والے شہر حمص میں سرکاری فورسز کی گولہ باری کے نتیجے میں کم از کم 12 افراد ہلاک ہوگئےہیں جس کے بعد آج ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 19 ہوگئی ہے۔
یہ ہلاکتیں ایک ایسے وقت میں ہوئی ہیں جب اقوام متحدہ کےمبصرین کے ایک مختصر وفد نے حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان ہونے والی ناپائیدار جنگ بندی کے جائزے کا کام شروع کردیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سرکاری فورسز بدھ کو بھی وسطی شہر حمص کے مضافاتی علاقوں کو ہدف بناتی رہیں جو کہ حکومت مخالفین کی گزشتہ ایک سال سے جاری جدوجہد کا مرکز رہے ہیں۔
اس سے قبل حزبِ اختلاف کے حامی کارکنوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں سرکاری فورسز کی کاروائیوں میں سات افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا ۔
ان کارکنوں کے دعویٰ کے مطابق چار افراد اُس وقت ہلاک ہوئے جب سکیورٹی فورسز نے شمالی صوبہ ادلب میں ایک چوکی پر رکنے والی بس پہ فائر کھول دیا۔
شام کے سرکاری خبر رساں ادارے 'صنعا' نے کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے ادلب میں تخریب کاری کی غرض سے ترکی سے شام میں داخل ہونے والے دہشت گروں کو چوکی پر روکنے کے بعد ایک دہشت گرد کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا ہے۔
یہ واضح نہیں ہے کہ آیا سرکاری رپورٹ میں اسی واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے یا یہ کوئی اور واقعہ ہے۔
تشدد کے یہ واقعات ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب عالمی ادارے کے لگ بھگ ایک درجن مبصرین نے حکومت اور حزبِ اختلاف کے باغیوں کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کے جائزے کی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔
دریں اثنا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام کے مبصر مشن میں 300 تک اہل کاروں کے اضافے کی منظوری دے دی ہے، جب کہ فرانسیسی وزیر خارجہ الین ژوپے نے مزید مبصرین کی جلد تعیناتی کا مطالبہ کیا ہے۔
بدھ کو شام کی حزب مخالف کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد فرانسیسی وزیر نےکہا کہ بین الاقوامی برادری حکومت شام کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں سے زیادہ دیر تک صرفِ نظر نہیں کرے گی۔
شام میں تعینات کیا جانے والا مبصرین کا مشن اُس معاہدے کا حصہ ہے جو شام کے لیے عرب لیگ اور اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی کوفی عنان کے توسط سے طے پایا تھا۔
منصوبے میں فریقین سے پر تشدد کارروائیاں بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے لیکن حکومت اور حزب مخالف تشدد کی جاری کاروائیوں پہ ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹہرا رہے ہیں۔