|
"پاکستان کی کرکٹ بہترین حالت میں بھی ایک منٹ میں نیچے آتی ہے تو اگلے منٹ اوپر‘‘ ناصر حسین کے یہ الفاظ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے مزاج کی عکاسی کرتے ہیں۔
کمنٹیٹر ناصر حسین نے یہ الفاظ 2017 کی چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں اس وقت کہے تھے جب محمد عامر کی گیند پر اظہر علی سے وراٹ کوہلی کا کیچ ڈراپ ہونے کے بعد اگلے ہی گیند پر شاداب خان نے اُن کا کیچ تھام لیا تھا۔
اس وقت تک پاکستان سن 1992 کے ورلڈ کپ اور 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے علاوہ کوئی بڑی آئی سی سی ٹرافی اپنے نام نہیں کر سکا تھا۔ تاہم اس میچ میں روایتی حریف بھارت کو 180 رنز کے بڑے مارجن سے شکست دے کر پاکستان نے تاریخی فتح اپنے نام کی تھی۔
پاکستان ٹیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب اس کا دن اچھا ہو تو یہ بڑے سے بڑے حریف کو بھی زیر کر لیتی ہے۔ لیکن ہارنے پر آئے تو دنیا کی کمزور ٹیم کے سامنے بھی گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔
حال ہی میں آئرلینڈ کے خلاف میچ میں شکست اور نیوزی لینڈ کی کمزور ٹیم کے خلاف ہوم سیریز برابر کرنے کو بھی ماہرین ٹیم کے اسی مزاج کی عکاسی قرار دیتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے چانسز
امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی ٹیم اپنا پہلا میچ چھ جون کو امریکہ کے خلاف کھیلے گی۔ گو کہ پاکستان ٹیم کے پاس موجود تجربے اور ٹیلنٹ کے باعث اسے امریکہ کے خلاف میچ میں فیورٹ سمجھا جا رہا ہے۔
لیکن اس ٹورنامنٹ میں بھی پاکستان کی ٹیم ایک معما بنی ہوئی ہے۔ یہ ممکنہ طور پر پہلے راؤنڈ میں باہر بھی ہوسکتی ہے اور ورلڈ کپ جیت بھی سکتی ہے۔
سن 2022 میں آسٹریلیا میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ میں ایونٹ سے باہر ہوتے ہوتے اچانک یہ ٹیم سیمی فائنل کھیل گئی اور پھر فائنل میں ایک وقت میں انگلینڈ کو بھی شکست دینے کے قریب پہنچ گئی تھی۔
امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں 20 ٹیمیں شریک ہیں جن میں پاکستان گروپ اے میں بھارت، آئرلینڈ، امریکہ اور کینیڈا کے ساتھ موجود ہے۔ پاکستان کو اگلے راؤنڈ ٹک رسائی کے لیے چار میں سے تین میچز جیتنے ہوں گے۔
پاکستان اپنا پہلا میچ چھ جون کو ڈیلس میں امریکہ کے خلاف کھیلے گا جب کہ نو جون کو نیویارک میں دوسرا میچ روایتی حریف بھارت کے ساتھ ہو گا۔ پاکستان 11 جون کو نیویارک میں کینیڈا کے مدمقابل ہوگا جب کہ 16 جون کو فلوریڈا میں اس کا میچ آئرلینڈ سے ہوگا۔
'ایک اچھی اننگز یا اسپیل میچ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے'
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نو جون کو بھارت سے ہار گیا تو اگلے دو میچز میں ٹیم دباؤ میں آ سکتی ہے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان وسیم اکرم کہتے ہیں کہ ٹی ٹوئنٹی فارمیٹ کی عجیب و غریب نوعیت کسی بھی دن کسی بھی ٹیم کا پلڑا بھاری کر سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "ٹی ٹوئنٹی میچ میں کوئی بھی اچھی اننگز اور ایک اچھا بالنگ اسپیل میچ کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔"
لیجنڈری فاسٹ بالر کا مزید کہنا تھا کہ "پاکستان ٹیم اپنے اچھے دن پر کچھ بھی کر سکتی ہے، اس لیے میں انہیں کم از کم سیمی فائنل میں دیکھتا ہوں۔ حالاں کہ اُن کی حالیہ پرفارمنس اتنی اچھی نہیں رہی لیکن اس کے باوجود وہ سیمی فائنل کھیلنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔"
پی سی بی میں تبدیلیوں کا اثر
پہلے کی طرح اس بار بھی ورلڈ کپ کے لیے پاکستان کی تیاری ابہام کا شکار رہی۔ پی سی بی کی چیئرمین شپ میں تبدیلی ہوئی جس کی سربراہی اب محسن نقوی کے پاس ہے جو ملک کے وزیرِ داخلہ بھی ہیں۔
محسن نقوی نے بابر اعظم کو کپتان کے طور پر واپس لانے سے لے کر پاکستان کی سلیکشن کمیٹی میں تبدیلی تک کئی اقدامات کیے۔ ساتھ ہی پاکستان کرکٹ بورڈ نے گیری کرسٹن کو کوچ مقرر کیا جو 2011 کے ون ڈے ورلڈ کپ کی فاتح بھارتی ٹیم کے بھی کوچ تھے۔
پاکستان ٹیم کے سابق کپتان مصباح الحق کہتے ہیں کہ ورلڈ کپ کی تیاریوں کو دھچکہ پہلے ہی لگ چکا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ "جو کچھ پی سی بھی میں ہوا اس کا لامحالہ اثر کرکٹ ٹیم پر پڑا۔ ٹیم مومینٹم کھو چکی ہے جس کا اندازہ حالیہ کارکردگی سے ہوتا ہے۔"
مصباح الحق پاکستان کے اس ورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ تھے جسے 2007 میں بھارت سے شکست ہوئی تھی۔ فائنل کے آخری اوور میں مصباح الحق اسکوپ شاٹ کھیلنے کی کوشش میں آؤٹ ہو گئے تھے اور بھارت پہلا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیت گیا تھا۔ دو سال بعد مصباح الحق اس ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ کا حصہ تھے جب پاکستان نے پہلی ٹی ٹوئنٹی ٹرافی اپنے نام کی تھی۔
مصباح جو 2019 سے 2021 تک پاکستان ٹیم کے کوچ بھی رہ چکے ہیں کہتے ہیں کہ پاکستان کے پاس ایک جینوئن فاسٹ بالنگ آل راؤنڈ نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ "پاکستان ٹیم کے پاس ایک اچھے کمبی نیشن کے لیے کم و بیش تمام وسائل ہیں، لیکن ہمارے پاس فاسٹ باؤلنگ کرنے والا آل راؤنڈر نہیں ہے اور اسی وجہ سے پچھلے ورلڈ کپ میں بھی ہمیں نقصان ہوا تھا۔"
پاکستان نے ورلڈ کپ کے لیے اپنے 15 رکنی اسکواڈ میں پانچ فاسٹ بالرز کا انتخاب کیا ہے جن میں شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ، محمد عامر، حارث رؤف اور عباس آفریدی شامل ہیں۔
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان نے ایک اضافی فاسٹ بالر کو ٹیم میں شامل کیا ہے حالاں کہ ایک فاسٹ بالر کے بجائے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے اسپنر اُسامہ میر کو موقعہ دینا چاہیے تھا۔
کپتان بابر اعظم کا دعویٰ ہے کہ پاکستان ٹیم نے اپنے حالیہ مسائل پر قابو پا لیا ہے۔
آئر لینڈ اور انگلینڈ کے دورے کے لیے روانگی کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے بابر اعظم نے کہا تھا کہ "یہ ایک انتہائی باصلاحیت اور متوازن ٹیم ہے۔ سیمی فائنل اور پھر فائنل کی رکاوٹ عبور کر کے اب ہم ٹرافی جیتنے کی کوشش کریں گے۔"
پرانے اسٹائل کی بیٹنگ
ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کا بیٹنگ اسٹائل بھی تنقید کی زد میں رہتا ہے جس کا موازنہ دوسری ٹیموں کے برق رفتار بیٹنگ اسٹائل سے کیا جاتا ہے۔
پاکستان کا روایتی حریف بھارت ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اب تک 23 مرتبہ 200 سے زائد رنز اسکور کر چکا ہے جب کہ نیوزی لینڈ 21 مرتبہ ایسا کر چکا ہے۔ تاہم پاکستان نے اب تک صرف 11 مرتبہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں 200 رنز کا ہندسہ عبور کیا ہے۔ آخری مرتبہ ستمبر 2022 میں پاکستان کرکٹ ٹیم نے 200 رنز بنائے تھے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان معین خان کہتے ہیں کہ "بابر اعظم اور محمد رضوان پر انحصار کرنے سے پاکستان ٹیم کو نقصان نہیں پہنچے گا۔"
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ بابر اور رضوان کی جوڑی پاکستان کی بیٹںگ لائن کی بڑی قوت ہے جس پر ٹیم بھروسہ کرتی ہے۔"
واضح رہے کہ بابر اعظم اور محمد رضوان کی جوڑی اب تک 10 مرتبہ 100 رنز سے زائد کی اوپننگ پارٹنر شب قائم کر چکی ہے جو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ورلڈ ریکارڈ ہے۔
مصباح الحق بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی ٹیم سیمی فائنل تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ "پاکستان کی ٹیم اچھی ہے اور میزبان ممالک کی کنڈیشنز دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ٹاپ فور میں جگہ بنا سکتی ہے۔ لیکن دیکھنا ہو گا کہ یہ اس دن کیسا کھیلتی ہے۔"
فورم