رسائی کے لنکس

مخصوص نشستوں کا کیس: 'عدالت نے الیکشن کمیشن کے مطابق نہیں قانون پر چلنا ہے'


  • سپریم کورٹ کے 13 رکنی فل کورٹ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
  • آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو پی ٹی آئی کا کیس اچھا تھا۔ پی ٹی آئی جا کر کہہ سکتی تھی یہ ہمارے لوگ ہیں نشستیں ہمیں دو: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ
  • انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا۔ قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا: جسٹس منیب اختر
  • اصل اسٹیک ہولڈر ووٹر ہے جو ہمارے سامنے نہیں۔ پی ٹی آئی مسلسل شکایت کر رہی تھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی: جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد — سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ انتخابی نشان صرف سیاسی جماعت کی سہولت کے لیے ہے۔ نشان کے بغیر بھی سیاسی جماعت بطور پارٹی الیکشن لڑ سکتی ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا۔ قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا۔

منگل کو سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت میں دوسرے روز سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز جسٹس جمال مندوخیل کا سوال تھا کہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن کیوں نہیں لڑا؟ سلمان اکرم راجہ نے اسی متعلق درخواست دی تھی جو منظور نہیں ہوئی۔

'سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا'

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی تضاد نہیں کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا۔ اسی لیے سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے پہلے فہرست جمع نہیں کرائی۔

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ہدایت کی کہ اپنی یہ بات ایک بار دہرا دیں جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ جی اس میں کوئی تنازعہ نہیں ہے کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا۔

فیصل صدیقی کے جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ تنازعے کی بات کیوں کر رہے ہیں؟ بس کہیں الیکشن نہیں لڑا، فل اسٹاپ۔

چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی کو لارڈ شپ کہنے سے منع کرتے ہوئے کہا کہ لارڈ شپ کہنے کی ضرورت نہیں۔ وقت بچایا جا سکتا ہے۔

سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے کہا کہ آئین کے مطابق آزاد امیدوار تین دن میں سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت سے الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر آگاہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں حاصل کرنے کے لیے دیگر جماعتوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا۔ مخصوص نشستوں کے لیے سنی اتحاد کی درخواست انتخابات نہ لڑنے اور فہرست جمع نہ کرانے پر خارج ہوئی جب کہ الیکشن کمیشن نے تمام نشستیں دیگر جماعتوں کو دے دیں۔

ان کے بقول سنی اتحاد میں شمولیت غلط قرار دینے کی حکومتی جماعتوں کی استدعا پر کوئی فیصلہ نہیں دیا گیا۔

پارلیمانی پارٹی اور سیاسی پارٹی میں فرق

سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت درست مانتے ہوئے ہی اسے پارلیمانی جماعت تسلیم کیا گیا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پارلیمانی پارٹی اور سیاسی جماعت میں فرق ہوتا ہے؟ اس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ہر سیاسی جماعت کی پارلیمانی پارٹی الگ سے ہوتی ہے۔

چیف جسٹس نے اس پر سوال کیا کہ کیا آئین میں سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کو الگ لکھا گیا ہے؟

فیصل صدیقی نے بتایا کہ آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر کیا گیا ہے جس جماعت کی اسمبلی میں کوئی نشست نہ ہو وہ سیاسی جماعت ہو گی پارلیمانی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ آٹھ فروری کو سنی اتحاد سیاسی جماعت تھی۔ ارکان کی شمولیت کے بعد پارلیمانی جماعت بن گئی۔ سیاسی جماعت اور پارلیمانی پارٹی کے درمیان ایک تفریق ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آئین اس تفریق کو تسلیم کرتا ہے؟ جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ جی 63 اے آرٹیکل موجود ہے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آٹھ فروری سے پہلے کیا تھے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ آٹھ فروری سے پہلے ہم سیاسی جماعت تھے اور آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ہم پارلیمانی جماعت بن گئے۔

دورانِ سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کل سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے خلاف بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔

اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ اس کا عدالت کے سامنے موجود معاملے سے تعلق نہیں ہے۔ سنی اتحاد کونسل دونوں سیاسی اور پارلیمانی پارٹی ہے۔

وکیل کے جواب پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کا پارلیمانی سربراہ کون ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ وہ سربراہ کے حوالے سے ابھی بتا دیتے ہیں لیکن عدالت میں یہ بات اہم نہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو اپنے سربراہ کا نام ہی نہیں معلوم، آپ درخواست گزار ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پارلیمانی سربراہ کا کوئی الیکشن ہوتا ہے؟ معلوم کیسے ہوتا ہے کہ پارلیمانی سربراہ کون ہے؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمانی سربراہ کا مقدمے سے تعلق نہیں اس لیے اس حوالے سے تیاری نہیں کی۔

عدالت میں فیصل صدیقی سے مختلف ججز سوال کرتے رہے اور وہ تحمل سے سب سوالات کے جواب دیتے رہے۔

'آزاد امیدوار سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں ہوتا'

جسٹس اطہر من اللہ نے ان سے سوال کیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ سیاسی جماعت ہوئے بغیر پارلیمانی پارٹی ہو؟ جو بھی پارٹی اسمبلی میں ہو گی تو پارلیمانی پارٹی ہو گی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آزاد امیدوار وہ ہوتا ہے جو کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہ ہو۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کاغذات نامزدگی میں کوئی خود کو پارٹی امیدوار ظاہر کرے اور ٹکٹ جمع کرائے تو جماعت کا امیدوار تصور ہو گا۔ آزاد امیدوار وہی ہو گا جو بیان حلفی دے گا کہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں۔

انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد میں شامل ہونے والوں نے خود کو کاغذات نامزدگی میں پی ٹی آئی امیدوار ظاہر کیا۔ کاغذات بطور پی ٹی آئی امیدوار منظور ہوئے اور لوگ منتخب ہو گئے۔ الیکشن کمیشن کے رولز کیسے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد قرار دے سکتے ہیں؟ انتخابی نشان ایک ہو یا نہ ہو وہ الگ بحث ہے لیکن امیدوار پارٹی کے ہی تصور ہوں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اس حساب سے تو سنی اتحاد میں پی ٹی آئی کے کامیاب لوگ شامل ہوئے، پارٹی میں تو صرف آزاد امیدوار ہی شامل ہو سکتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر امیدواروں کو آزاد قرار دیا تھا؟ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو خود آزاد تسلیم کرتے ہوئے الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس سارے تنازع کی وجہ بنا۔ سپریم کورٹ نے انتخابی نشان واپس لینے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ میں فیصلے پارلیمانی پارٹی کرتی ہے۔ اس کے فیصلے ماننے کے سب پابند ہوتے ہیں۔ پارلیمانی پارٹی قانونی طور پر پارٹی سربراہ کی بات ماننے کی پابند نہیں ہوتی۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 51 میں سیاسی جماعت کا ذکر ہے پارلیمانی پارٹی کا نہیں۔ آرٹیکل 51 اور مخصوص نشستیں حلف اٹھانے سے پہلے کا معاملہ ہے۔ ارکان حلف لیں گے تو پارلیمانی پارٹی وجود میں آئے گی۔ پارلیمانی پارٹی کا ذکر اس موقع پر کرنا غیر متعلقہ ہے، مناسب ہو گا کہ سیاسی جماعت اور کیس پر ہی فوکس کریں۔

'انٹرا پارٹی انتخابات نہ ہونے پر سیاسی جماعت کو نشان نہیں ملا'

سماعت میں ایک موقع پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ عدالت کے سامنے بلے کا کیس تھا ہی نہیں۔ عدالت کے سامنے انٹرا پارٹی الیکشن کا کیس تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابی نشان کا مسئلہ خود الیکشن کمیشن کا اپنا کھڑا کیا ہوا تھا۔ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دے کر اپنے کھڑے کیے گئے مسئلے کا حل نکالا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ انٹرا پارٹی انتخابات نہ ہونے پر سیاسی جماعت کو نشان نہیں ملا۔ کیا کسی امیدوار نے بلے کے نشان کے لیے رجوع کیا تھا؟

اس دوران فیصل صدیقی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کو درخواست دی گئی مسترد ہونے پر آرڈر چیلنج بھی کیا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ انتخابی نشان صرف سیاسی جماعت کی سہولت کے لیے ہے۔ انتخابی نشان کے بغیر بھی سیاسی جماعت بطور پارٹی الیکشن لڑ سکتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ انتخابی نشان کی الاٹمنٹ سے پہلے سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا۔ قانونی غلطیوں کی پوری سیریز ہے جس کا آغاز یہاں سے ہوا تھا۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے خود کو پی ٹی آئی امیدوار قرار دینے کے لیے رجوع کیا تھا لیکن الیکشن کمیشن نے سلمان اکرم راجہ کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہر امیدوار اگر بیلٹ پیپر پر پی ٹی آئی امیدوار ہوتا تو یہ سپریم کورٹ فیصلے کی خلاف ورزی ہوتی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ جو انتخابی نشان سیاسی جماعت کے لیے مختص ہو وہ کسی اور امیدوار کو نہیں مل سکتا۔

سماعت کے دوران جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ بلے باز بھی کسی سیاسی جماعت کا نشان تھا جو پی ٹی آئی لینا چاہتی تھی۔ بلے باز والی جماعت کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ اس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ بلے باز والی جماعت کے ساتھ انضمام ختم کر دیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز نے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے میں لکھا ہے کہ بلے کا نشان کسی اور کو الاٹ نہیں ہو سکتا؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ عدالتی فیصلے میں ایسا کچھ نہیں لکھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا بہت شکریہ۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کو ایسا کہنے کی ضرورت تھی؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کو کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ نشان کسی اور کو نہیں مل سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بہت مضبوط توجیہات ہیش کی جا رہی ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ فیصلے کے بعد بلے کے نشان کو ختم کیا گیا تھا یا نہیں۔

دورانِ سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جسٹس منیب کے مطابق بلے کا نشان ختم ہونے کے باجود امیدواروں نے پی ٹی آئی امیدواروں کے طور پر الیکشن لڑا۔ اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم یہی کرنا چاہتے تھے لیکن الیکشن کمیشن نے ختم کر دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم کرنا چاہتے تھے کیا مطلب؟ وکیل صدیقی نے کہا کہ وہ سنی اتحاد کونسل کے ہر ممبر کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل اختلاف آ سکتا ہے۔ وہ کہیں ہمارے ممبرز ہیں اور یہ کہیں ہمارے، قانون کہتا ہے پارٹی الیکشن کروائیں یا تو کہہ دیں قانون پر مت عمل کرو۔ ہم نے آپ کو کیس کے دوران بھی مشورے دیے تھے جن پر عمل نہیں کیا گیا۔ آپ نے کاغذات نامزدگی میں تحریک انصاف کے امیدوار کا نام دے دیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اصل اسٹیک ہولڈر ووٹر ہے جو ہمارے سامنے نہیں۔ پی ٹی آئی مسلسل شکایت کر رہی تھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں مل رہی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ شکایت ہمارے سامنے نہیں۔

'ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں'

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم بنیادی حقوق کے محافظ ہیں۔ ہمیں دیکھنا ہے کہ ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کیسے ہو سکتا تھا؟ ایک جماعت شفاف موقع نہ ملنے کا مسلسل کہہ رہی تھی اور یہ پہلی بار نہیں تھا۔ پہلی بار ایسا نہیں ہوا کہ کوئی سیاسی جماعت زیرِ عتاب آئی ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کے مطابق نہیں قانون پر چلنا ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے روز ہی عدالت میں چیلنج ہوتے ہیں۔ اس پر وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ چیلنج نہیں کیا گیا یہ حتمی ہو چکا ہے۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ مسئلے حل ہو جاتے اگر سپریم کورٹ انتخابی نشان والے فیصلے کی وضاحت کر دیتی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی جماعتی انتخابات کرا لیتی تو آج نشستوں والا مسئلہ ہی نہ ہوتا۔

عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ایوان میں زیادہ آزاد امیدوار ہوں اور سیاسی جماعتیں دو ہوں تو کیا ہو گا؟ کیا ساری مخصوص نشستیں دو سیاسی جماعتوں کو جائیں گی؟ کیا ان جماعتوں کو صرف جیتی نشستوں کے تناسب سے مخصوص نشستیں ملیں گی؟ پہلے اس تنازعے کو حل کریں۔ اس کا کیا جواب ہے؟

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ حقیقی آزاد امیدوار ہوں تو ان کے تو مزے ہو جائیں گے۔ حقیقی آزاد امیدواروں کو تو دیگر سیاسی جماعتیں لے لیتی ہیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر یہ 77 لوگ سنی اتحاد میں شامل نہ ہوتے تو پھر مخصوص نشستوں کا کیا ہوتا؟

سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دو سیاسی جماعتیں اپنی جیتی نشستوں کے تناسب سے ہی مخصوص نشستیں لیں گی۔ باقی نشستوں کا کیا ہو گا بعد میں دیکھا جائے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ان ہی سیاسی جماعتوں کو اضافی نشستیں بھی بانٹ دیں۔ ایسا کرنے سے پھر متناسب نمائندگی کا اصول کہاں جائے گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں یہ نہیں کروں گا کہ ہم آئین بنانے بیٹھ جائیں۔ جو آئین ہے اس پر ہی عمل کریں گے۔ آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں نہ جاتے تو پی ٹی آئی کا کیس اچھا تھا۔ پی ٹی آئی جا کر کہہ سکتی تھی یہ ہمارے لوگ ہیں نشستیں ہمیں دو، کس دلیل پر پی ٹی آئی کا یہ مؤقف مسترد ہوتا؟

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 24 جون تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ 24 جون سے کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہو گی۔

فورم

XS
SM
MD
LG