پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکنوں کا دھرنا جاری ہے۔
دوسری طرف سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سیاسی رابطوں میں تیزی آئی ہے۔
بدھ کو پہلی مرتبہ ایک پارلیمانی کمیٹی نے طاہر القادری سے ملاقات کی جس میں وفاقی حکومت کے دو وزرا بھی شامل تھے۔
اس رابطے سے کچھ ہی دیر قبل عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری نے وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ وہ حکومت سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے کارکن منگل کی شب وفاقی دارالحکومت کے حساس علاقے ’ریڈ زون‘ میں داخل ہو گئے تھے۔
اُدھر عسکری ذرائع کے مطابق پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف سے ملاقات کی جس میں آرمی چیف نے ایک مرتبہ پھر موجودہ معاملے کے جلد حل کے لیے با مقصد مذاکرات پر زور دیا۔
اس سے قبل بدھ کی دوپہر پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر دھرنا دینے والے اپنے کارکنوں سے خطاب میں طاہر القادری نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ ہاؤس کا محاصرہ کر کے نا تو کسی کو اندر جانے دیں اور نا ہی وزیراعظم سمیت کسی کو باہر نکلنے دیں۔
’’جو قابض ہیں اگر وہ نکل گئے تو آپ کے آنے کا یہاں کوئی مقصد نہیں ہے اور اگر کوئی اندر داخل ہو گیا تو بھی آپ کے آنے کا کوئی مقصد نہیں ہے‘‘
طاہرالقادری کا کہنا تھا کہ جو ’’اندر ہے وہ اندر رہے، جو باہر ہے وہ باہر رہے، وزیراعظم بھی اس عمارت سے باہر نا نکل سکے۔‘‘
عوامی تحریک کے سربراہ کے اعلان کے بعد اُن کے کارکن فوراً پارلیمنٹ ہاؤس کے داخلی اور خارجی راستوں کی طرف بڑھے۔
طاہر القادری کی طرف سے پارلیمنٹ کے محاصرے سے متعلق بیان جب سامنے آیا اس وقت قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا اور وزیراعظم بھی اُس میں شریک تھے۔
تاہم عوامی تحریک کے کارکنوں کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس کے محاصرے کے بعد وزیراعظم اور ارکین پارلیمان متبادل راستوں سے وہاں سے نکلے۔
لیکن اس اعلان کے کچھ ہی دیر بعد طاہر القادری نے دو اراکین قومی اسمبلی اعجاز الحق اور حیدر عباس رضوی سے ملاقات کے بعد اپنے کارکنوں سے کہا کہ وہ پارلیمنٹ ہاؤس سے پیچھے ہٹ جائیں۔
اس سے قبل بدھ کو طلوع آفتاب سے قبل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر خطاب میں ایک بار پھر وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔
اگرچہ حکومت کی طرف سے یہ بیانات دیئے جاتے رہے کہ کسی کو ریڈ زون میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن منگل کو جب عمران خان اور طاہرالقادری نے اپنے ہزاروں کارکنوں کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس کی جانب مارچ کیا تو پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی طرف سے کسی طرح کی مزاحمت نہیں کی گئی۔
طاہرالقادری اور عمران خان کے مارچ کے آگے مظاہرین کے پاس ایک ’کرین‘ تھی جس کی مدد سے وہ کنٹینر ہٹاتے رہے جب کہ احتجاج میں شامل افراد کے پاس خار دار تاریں کاٹنے والے آلات بھی تھے۔
واضح رہے کہ ریڈ زون میں سکیورٹی کی ذمہ داری حکومت نے پاکستانی فوج کے حوالے کر دی ہے اور یہاں واقع تمام عمارتوں بشمول پارلیمنٹ ہاؤس، ایوان صدر اور وزیراعظم کی حفاظت کے لیے فوج تعینات ہے۔
پاکستان کی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر ایک بیان میں کہا کہ ریڈ زون میں واقع عمارتیں ریاست کی علامت ہیں اور ان کی حفاظت فوج کر رہی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں تمام فریقین صبر و تحمل اور تدبر سے کام لیتے ہوئے تعلطل کو با مقصد مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔