انٹرنیٹ کے معروف سرچ انجن گوگل نے اس ہفتے تائیوان میں ایشیاء کے لیے اپنے تیسرے مرکز کی بنیاد رکھی۔ گوگل کو توقع ہے کہ اس مرکز کے قیام سے اس کے دنیا بھر کے صارفین کو انٹرنیٹ سرچ کی تیز رفتار سہولت میسر آئے گی اور وہ اس خطے میں اپنی حریف کمپنیوں کا بہتر طورپر مقابلہ کرسکے گی۔
گوگل امریکہ کا ایک مقبول سرچ انجن ہے جب کہ ایشیا ء میں اس کمپنی کو کئی سخت حریفوں کا سامناہے۔
جاپان اور تائیوان کا سب سے مقبول سرچ انجن یاہو ہے ۔ جنوبی کوریا میں مقبولیت کے وکٹری اسٹینڈ پر ’ناور‘ کا قبضہ ہے۔ جنوبی کوریا کی یہ کمپنی ملک میں انٹرنیٹ کے شعبے میں دوتہائی حصص پر قابض ہے۔
چین میں ، جو دنیا بھر میں انٹرنیٹ صارفین کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، گوگل نے سینسر شپ کی پابندیوں کے خلاف احتجاجاً دو سال قبل اپنا مرکز بند کردیا تھا۔ چین کا مقامی سرچ انجن ’بایدو‘ اس ملک کی 75 فی صد ضروریات پوری کررہاہے۔
ماہرین کا کہناہے کہ ایشیا میں ایک نئے ڈیٹا سینٹر کے قیام سے گوگل تیز رفتار انٹرنیٹ سرچ فراہم کرسکے گا اور علاقے کے صارفین کے لیے زیادہ قابل قبول بن جائے گا۔
انڈونیشیا کے ایک تجزیہ کار تاج میدوس کہتے ہیں کہ گوگل کو ، جسے قائم ہوئے ابھی کل 14 سال ہوئے ہیں، ایشیائی خطے میں تن تنہا اپنے قدم جمانا آسان نہیں ہوگا۔
گوگل نے منگل کو اعلان کیا کہ وہ تائیوان میں 30 کروڑ ڈالر کی لاگت سے اپنا ڈیٹا سینٹر قائم کررہاہے۔
یہ امریکی کمپنی ہانگ کانگ اور سنگاپور میں بھی دو ایسے ہی مراکز کی تعمیر پر کام کررہی ہے ۔ نئے مرکز کے قیام سے ایشیاء میں اس کی سرمایہ کاری 70 کروڑ ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
چونکہ یہ مرکز مکمل طورپر کمپیوٹر نظام سے منسلک ہوتے ہیں ، اس لیے ان کے لیے زیادہ کارکنوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کمپنی کا کہناہے کہ تائیوان میں اسے اپنا ڈیٹا سینٹر چلانے کے لیے صرف 25 کارکنوں کی ضرورت پڑے گی۔
دو سال قبل گوگل نے جاپان میں یاہو کے ساتھ سرچ انجن ٹیکنالوجی کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جس سے دونوں کمپنیوں کے درمیان تعاون کا راستہ ہموار ہوا تھا۔ تائے پئے کی ہائی ٹیک صنعت سے منسلک جیمی لین کہتے ہیں کہ تائیوان میں سرچ انجن کے ڈیٹا سینٹر کے قیام سے کمپنی حال ہی میں کچھ فوائد حاصل ہوئے ہیں۔
گوگل کے اعلان میں کہا گیا ہے کہ تائیوان کا ڈیٹا سینٹر اگلے سال کے آخر تک اپنا کام شروع کردے گا۔