انسانی حقوق کے نگراں بین الاقوامی ادارے، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے الزام لگایا ہے کہ 30 اگست کو افغانستان کے حکمراں، طالبان نے غیر قانونی طور پر ہزارہ نسلی برادری کے 13 ارکان کو ہلاک کر دیا، اس واقعہ سے دو ہی ہفتے قبل طالبان نے اس جنگ سے متاثرہ ملک پر قبضہ کیا تھا۔
ایمنسٹی کی جانب سے منگل کے روز جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں معزول افغان حکومت کی افواج کے 11 اہل کاروں سمیت، دو عام شہری اور ایک 17 سالہ لڑکی بھی شامل ہے۔
رپورٹ میں عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ماورائے عدالت سزائے موت کا یہ واقع شمالی صوبہ دایکندی کے خضر ضلع میں واقع کھور نامی گاؤں میں پیش آیا۔
ایمنسٹی نے بتایا کہ ہلاکتوں کے واقعے کے بعد تصاویر اور ویڈیو ثبوت کی مدد سے اس کی تصدیق کی گئی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ طالبان بدلہ لینے کی نوعیت کا یہ ظالمانہ طریقہ کار فوری طور پر بند کریں۔
رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشل کے سیکرٹری جنرل، ایگنیس کلامرد نے کہا ہے کہ ''ایسے بے رحمانہ سزائے موت کے واقعات اس بات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ طالبان اُسی ڈگر پر چل پڑے ہیں جیسا کہ افغانستان پر ماضی کی اپنی حکمرانی کے دور میں ان کا طریقہ رہا ہے''۔
وائس آف امریکہ نے طالبان سے رابطہ کیا تاکہ ایمنسٹی کی رپورٹ میں لگائے گئے الزامات پر ان کا رد عمل حاصل کیا جا سکے، لیکن انھوں نے فوری طور پر رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔
ہزارہ کا تعلق شیعہ مسلک سے ہے، جن کی ملک میں اچھی خاصی تعداد آباد ہے۔
اسلام نواز طالبان گروپ پر اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ 1996 سے 2001ء کے دوران افغانستان پر اپنے پچھلے دور حکومت کے دوران وہ نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے پر ظلم ڈھایا کرتے تھے۔ خواتین کو روزمرہ زندگی میں کام کاج کی اجازت نہیں تھی، جب کہ بچیوں کو تعلیم کے حصول سے دور رکھا جاتا تھا۔
لیکن، اگست کے وسط میں پھر سے اقتدار میں آنے کے بعد، اس قدامت پسند گروپ نے بین الاقوامی برادری کو یقین دہانی کرائی کہ تمام افغان باشندوں کے حقوق کا یکساں تحفظ کیا جائے گا، جس ضمن میں انھوں نے تمام شہریوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا، جن میں مغربی حمایت یافتہ معزول حکومت سے منسلک افراد بھی شامل ہیں۔
ایمنسٹی کی رپورٹ میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ ''طالبان کہتے ہیں کہ وہ گزشتہ حکومت کے سابق اہل کاروں کو ہدف نہیں بنا رہے ہیں، لیکن ان ہلاکتوں سے ان کے دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے''۔
بین الاقوامی برادری طالبان کی حکمرانی تسلیم کرنے کے مطالبات کو نظرانداز کرتی آئی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ انسانی حقوق کے تحفظ کی ان کی یقین دہانی پر واقعی کس قدر عمل درآمد کیا جاتا ہے، جن میں خصوصی طور پر خواتین کے حقوق شامل ہیں، اور کیا وہ جامع سیاسی حکومت بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
دریں اثنا، اقوام متحدہ کے اطفال سے متعلق ہنگامی فنڈ اور عالمی ادارہ صحت نے منگل کے روز افغانستان بھر میں ناقص غذائیت اور غذائی اجناس کی عدم دستیابی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان امدادی اداروں کی جانب سے جاری کردہ ایک اخباری بیان میں کہا گیا ہے کہ جب کہ موسم سرما کا آغاز ہو رہا ہے، پینے کے صاف پانی کی فراہمی، صحت اور غذا کی دستیابی یقینی بنانا ایک مشکل ترین امر ہو گا۔
اقوام متحدہ کے بیان میں انتباہ کیا گیا ہے کہ افغانستان کے ایک کروڑ 40 لاکھ افراد پر مشتمل آبادی کو خوراک کی شدید عدم دستیابی درپیش ہے، جب کہ سال کے اواخر تک اندازاً پانچ برس سے کم عمر کے لاکھوں بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہو گا''۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر فوری طور پر صورت حال سے خاطر خواہ طور پر نہ نمٹا گیا، تو 10 لاکھ بچوں کو صحت بخش غذا کی شدید قلت کا سامنا ہو گا، جن میں سے متعدد موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔''