افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کو ایک برس مکمل ہو گیا ہے اور اس موقع پر ملک بھر میں عام تعطیل ہے۔
ایک سال کے عرصے کے دوران دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تاحال تسلیم نہیں کیا جب کہ شدید معاشی مسائل، سیکیورٹی چیلنجز اور طالبان حکومت کے متعارف کردہ سخت قوانین نے افغان عوام کے مسائل میں اضافہ کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق طالبان حکام نے سرکاری طور پر اقتدار کا ایک سال مکمل ہونے پر کسی بھی تقریب کا اعلان نہیں کیا البتہ سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ وہ اس مناسبت سے خصوصی پروگرام نشر کرے گا۔
طالبان کے جنگجو اقتدار میں آنے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں تاہم امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ لگ بھگ چار کروڑ آبادی والے ملک میں سے آدھی آبادی شدید غربت کا شکار ہے۔
افغان دارالحکومت کابل میں رہائش پذیر اوغئی امیل کہتی ہیں کہ جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں ان کی زندگی کا مقصد ہی ختم ہو گیا ہے۔
امیل کہتی کے بقول، "ہم سے ہر چیز چھین لی گئی ہے اور یہاں تک کہ ہماری پرائیویسی بھی ختم ہو گئی ہے۔"
واضح رہے کہ امریکہ کی قیادت میں غیر ملکی افواج نے لگ بھگ 20 برس تک طالبان کے ساتھ جنگ کی اور گزشتہ برس 15 اگست کو غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد طالبان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔
ایک سال کے عرصے کے دوران ہزاروں لڑکیوں کو ثانوی اسکولوں سے باہر کر دیا گیا ہے جب کہ خواتین کو بہت سی سرکاری ملازمتوں میں واپس آنے سے روک دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق خصوصاً خواتین کے حقوق کی عالمی تنظیمیں طالبان کے طرزِ حکومت پر تنقید کرتی رہی ہیں۔
'ہم اپنے آپ سے نفرت کرنے لگے ہیں'
دوسری جانب افغان عوام تسلیم کرتے ہیں کہ جب سے طالبان اقتدار میں آئے ہیں تشدد کم ہو چکا ہے لیکن مالی مسائل نے انہیں مشکلات سے دو چار کر رکھا ہے۔
قندھار سے تعلق رکھنے والے ایک دکان دار نور محمد کہتے ہیں کہ دکانوں پر آنے والے گاہک قیمتوں میں اضافے کی شکایت کر رہے ہیں اور اس صورتِ حال میں ہم دکان دار اپنے آپ سے نفرت کرنے لگے ہیں۔
طالبان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی کا کہنا ہے کہ ان کی نوزائیدہ حکومت نے پہلے مرحلے میں سیکیورٹی کی صورتِ حال کو بہتر کیا ہے اور اب امن، استحکام اور خوش حالی کی جانب بڑھنا شروع کر دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے ایاز گل کو ایک انٹرویو کے دوران عبدالقہار بلخی کاکہنا تھا کہ تمام متعلقہ وزارتیں اپنی بھرپور صلاحیتوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے مقامی کرنسی کے استحکام، ملازمتوں کے مواقع بڑھانے، تجارت اور دیگر کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ اب یہ بیرونی ممالک خاص طور پر امریکہ پر ہے کہ وہ تمام یک طرفہ اقتصادی پابندیاں ہٹا کر افغان عوام کے درد کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ بینکنگ اور اقتصادی شعبے کو بہتر طریقے سے کام کرنے دیا جا سکے۔
خیال رہے کہ افغانستان کے مرکزی بینک کے لگ بھگ نو ارب ڈالر بیرونِ ملک پڑے ہیں جو امریکی پابندیوں کی وجہ سے منجمد ہیں۔
طالبان کا امریکہ سے مطالبہ رہا ہے کہ وہ افغانستان پر عائد کردہ پابندیں ختم کرے اور افغان عوام کا پیسہ واپس لوٹائے۔
رواں برس فروری میں امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے افغان مرکزی بینک کے منجمد 7 ارب ڈالرمیں سے آدھی رقم جاری کرنے کے احکامات جاری کیے تھے جس کا مقصد انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان عوام کی مشکلات کو کم کرنا تھا۔