عالمی ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہمسایہ ملکوں کی جانب نکلنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے، اس صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے کوئی قابل عمل طریقہ کار وضع کیا جانا ضروری ہے۔
ادارے کی ترجمان، اندریکا رتوتے نے بتایا ہے کہ افغانستان کے ساتھ تاجکستان اور ازبکستان کی سرحدیں مکمل طور پر بند ہیں۔ پاکستان اور ایران کی سرحدوں پر پاسپورٹ اور ویزا کی دستاویزات کے بغیر داخلہ ممنوع ہے، جب کہ پاکستان طبی بنیادوں پر کچھ افغان باشندوں کو بغیر دستاویزات ملک میں داخل ہونے کی خصوصی اجازت دیتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ تنگ آئے ہوئے افراد ملک سے باہر نکلنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، اس حد تک کہ وہ خطرناک نوعیت کے حربے بھی اختیار کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ عام طور پر دنیا بھر میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ پناہ کے متلاشی افراد ضروری کاغذات کے بغیر ہی بھاگ نکلتے ہیں۔ لیکن یہاں کا معاملہ گنجلک تر ہے۔ ہر ملک کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنی سرحد پر اپنے ضابطے نافذ کرے، ضرورت اس بات کی ہے کہ جو لوگ تحفظ چاہتے ہیں ان کے لیے گنجائش پیدا کی جانی چاہیے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کے موجودہ بحران سے پہلے بھی ہزاروں کی تعداد میں افغان پناہ گزیں پاکستان اور ایران کا رخ کرتے تھے، جن کا مقصد تجارت، طبی علاج معالجہ یا پھر خاندان سے ملنے کا مقصد ہوا کرتا تھا۔ پہلے زیادہ تر نقل و حمل عارضی ہوتی تھی، اور کچھ افراد افغانستان واپس چلے جاتے تھے۔ مگر اس سال اگست کے بعد صورت حال مختلف ہے۔
یو این ایچ سی آر کی ترجمان نے انکشاف کیا ہے کہ ہمسایہ ملکوں میں آنے والے متعدد افغان مہاجرین نے عالمی ادارے یا ساتھی اداروں سے درخواست کی ہے کہ وہ سیاسی پناہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو اس لیے ہمسایہ ملکوں کی جانب جانے کی خواہش رکھتے ہیں تاکہ وہاں سے انھیں بین الاقوامی تحفظ کی راہ میسر آ سکے۔
افغانستان میں اس وقت بچیوں کے اسکول میں داخلے کے حوالے سے پابندیاں عائد ہیں، جب کہ خواتین روزانہ کے کام کاج کے لیے گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں، جس کے باعث مشکلات میں گھرے لوگوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فراہم کی جانے والی امداد میسر نہیں آ پاتی۔
ساتھ ہی، صورت حال یہ ہے کہ مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو ہدف بنایا جاتا ہے، جب کہ انسانی حقوق کے کارکنان قتل تک کیے گئے ہیں یا انھیں آئے دن قتل کی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں۔ معیشت کی دگرگوں صورت حال اور افغانستان کے بڑے علاقے میں بھوک اور قحط سالی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ زندہ رہنے کے لیے راہ فرار تلاش کرتے ہیں۔
ویسے تو سرکاری طور پر پڑوسی ملکوں کی سرحدیں بند ہیں، لیکن ادارے کو اطلاعات ملتی رہتی ہیں کہ پناہ کے متلاشی افراد غیر سرکاری ذرائع کو استعمال کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ ایران میں داخل ہونے والے زیادہ تر افغان ملک سے نکلنے کے لیے اسمگلروں سے مدد مانگتے ہیں۔ کئی ایک پناہ گزینوں نے بعد ازاں یو این ایچ سی آر کو بتایا کہ راستے میں انھیں تحفظ کے حوالے سے ناقابل بیان مشکلات پیش آتی ہیں، جن میں رشوت لینا، مارپیٹ اور تشدد شامل ہیں، جن کا ہدف خواتین اور لڑکیاں بنتی ہیں۔
ترجمان نے بتایا ہے کہ دوسری جانب اگست سے اب تک پاکستان، ایران اور تاجکستان سے ملک بدر ہونے والے افغانوں کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے، جب کہ یو این ایچ سی آر نے ہمسایہ ملکوں کو تاکید کی ہے کہ وہ ایسے افراد کو ملک بدر نہ کریں۔ ستمبر سے اکتوبر تک پاکستان سے 1800 افغانوں کو ملک بدر کیا گیا؛ جب کہ تاجکستان سے 23 افغانوں کو ملک بدر کیا گیا۔ ادھر یومیہ 5000 کی تعداد میں افغان پناہ گزیں ایران داخل ہو رہے ہیں۔