رسائی کے لنکس

کابل پر طالبان کے کنٹرول کے ایک ہفتے بعد بھی ملا ہیبت اللہ منظرِ عام سے غائب، حکومتی خد و خال بھی واضح نہ ہو سکے


طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد گزشتہ ہفتے پہلی بار منظرِ عام پر آئے تھے۔ (فائل فوٹو)
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد گزشتہ ہفتے پہلی بار منظرِ عام پر آئے تھے۔ (فائل فوٹو)

افغانستان کے دارالحکومت کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے ایک ہفتے بعد بھی طالبان نے ملک کے انتظام چلانے کے حوالے سے کوئی باضاطہ حکمتِ عملی کا اعلان نہیں کیا گیا۔ پر امن اقتدار کے حوالے سے طالبان سیاسی رہنماؤں سے بات چیت جاری رکھے ہوئے ہے۔

گزشتہ چھ دن میں طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ کا ابھی تک کوئی بھی بیان سامنے نہیں آیا اور نہ ہی وہ منظرِ عام پر آئے ہیں۔ جب کہ طالبان ان کے حوالے سے کہتے رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں موجود ہیں۔

طالبان تحریک کے شریک بانی اور نائب امیر ملا عبد الغنی برادر دیگر طالبان رہنماؤں کے ساتھ قطر کے دارالحکومت دوحہ سے افغانستان کے شہر قندھار پہنچ چکے ہیں۔ تاہم ملک کی سربراہی اور دیگر امور کو چلانے کے لیے کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا۔

ابھی تک طالبان کے سرکردہ رہنماؤں نے سابق صدر حامد کرزئی، گلبدین حکمت یار، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، سینیٹ کے سابق چیئرمین فضل ہادی مسلم یار سمیت کئی سرکردہ سیاسی شخصیات سے بات چیت کی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان چاہتے ہیں کہ وہ کسی ایسی شخصیت پر متفق ہو جائیں جو کہ عالمی برادری کو قابلِ قبول ہو تاکہ ان کے ساتھ مختلف امور پر مل کر کام کیا جا سکے۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پاکستان اسٹڈی سینٹر کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام کے مطابق اس وقت امریکہ سمیت عالمی مالیاتی فنڈ نے افغانستان کے حوالے سے تمام اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ افغانستان کی گزشتہ حکومت میں شامل سیاسی رہنماؤں سے مذاکرات سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ طالبان بین الاقوامی برادری سے کسی نہ کسی صورت رابطے میں رہنے والے رہنماؤں حامد کرزئی، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار کو اپنے ساتھ حکومت میں شامل کر کے عالمی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

افغانستان کی اقلیتیں اور اندیشوں کا سیلاب بلا
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:21 0:00

ان کے مطابق اس دفعہ طالبان اپنی خود ساختہ حکومت کے بجائے مجبوری کے تحت ہی سہی، دوسرے دھڑوں کو حکومت سازی میں حصہ ضرور دیں گے۔

دوسری جانب افغانستان کے عوام اب بھی تذبذب کا شکار ہیں۔ اگرچہ کاروباری مراکز آہستہ آہستہ کھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ سڑکوں پر ٹریفک کی روانی بھی بہتر ہو گئی ہے۔ تاہم عوام اب بھی خوف کا شکار ہیں۔

مبصرین کے مطابق عوام نے طالبان کی کچھ پالیسیوں پر کھل کر ردِ عمل دکھانا بھی شروع کر دیا ہے۔ بدھ اور جمعرات کو افغانستان کے مختلف حصوں میں عوام نے آزادی کی مناسبت سے جھنڈوںکے ساتھ ریلیاں نکالیں۔

بدھ کو صوبہ خوست، کنڑ اور جلال آباد میں شہری افغان جھنڈے کو لہراتے ہوئے بازار میں نکلے تھے جس کے بعد فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں۔ اس احتجاج میں تین افراد ہلاک جب کہ متعدد زخمی ہونے کیا اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ اس بات کا تعین نہیں ہو سکا ہے کہ ہلاکتیں فائرنگ سے ہوئیں یا بھگدڑ میں لوگ ہلاک ہوئے۔

احمد مسعود کا مزاحمت کا اعلان

سابق جنگجو کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود طالبان کے خلاف مزاحمت کے لیے سامنے آئے ہیں۔

امریکہ کے اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں ایک مضمون میں انھوں نے امریکہ سے عسکری مدد طلب کی ہے۔ احمد مسعود سے ساتھ اشرف غنی کی حکومت میں سینئر نائب صدر رہنے والے امر اللہ صالح بھی ہیں جنھوں نے اشرف غنی کے مستعفی ہونے کے بعد خود کو آئینی صدر قرار دیا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر فخر الاسلام کا کہنا ہے کہ حکومت سازی میں تاخیر کے نقصانات سامنے آئیں گے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جلد بازی میں کوئی سیٹ اپ لانے کے اپنے نقصان دہ پہلو ہو سکتے ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ بدقسمتی سے پورا ملک کسی رہنما یا محکمے کے بغیر چل رہا ہے۔ اور ایسے میں انتشار پیدا کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا ہے۔ مزید تاخیر حالات میں بگاڑ کا سبب بن سکتی ہے۔

طالبان کا قبضہ اور کابل ایئرپورٹ کا آنکھوں دیکھا حال
please wait

No media source currently available

0:00 0:19:41 0:00

سابق افغان سرکاری اہلکاروں کی تلاش

دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ طالبان نے سابق افغان اہلکاروں کی تلاش تیز کر دی ہے۔

یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب منگل کو طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے تمام افراد کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے حوالے سے طالبان کا کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔

افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی مشتاق یوسف زئی کا کہنا ہے کہ طالبان کے لیے حکومت سازی کے حوالے سے بہت زیادہ چیلنجز ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ طالبان افغانستان کے گزشتہ نظام کو نہیں مانتے تھے۔ وہ اسے بیرونی دنیا کا مسلط کردہ نظام قرار دیتے ہیں۔ وہ بلدیہ، فوج، پولیس، عدالتیں، ذرائع ابلاغ وغیرہ کے حوالے سے اپنا لائحہ عمل بنا کر اس کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے مزید بتایا کہ طالبان شوریٰ کے نظام پر کار بند ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سپریم لیڈر کی حیثیت سے ملا ہیبت اللہ اخوند ہی اعلیٰ رہنما ہوں گے۔ جب کہ شوریٰ کے دیگر رکن انھیں جواب دہ ہوں گے۔ تاہم ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ملا ہیبت اللہ کی حیثیت سپریم لیڈر کی ہو تاہم شوریٰ کا سربراہ ملک کے تمام معاملات چلاتا ہو۔

مشتاق یوسف زئی کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت طالبان میں سب سے نمایاں پوزیشن سراج الدین حقانی کو حاصل ہے۔ کیوں کہ کابل سمیت تمام اہم مقامات ان کے قبضے میں ہیں۔

طالبان کا تنظیمی ڈھانچہ کیسے کام کرتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:35 0:00

یاد رہے کہ سراج الدین حقانی کے چھوٹے بھائی انس حقانی گزشتہ کئی روز سے افغانستان میں مختلف سیاسی دھڑوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

مشتاق یوسف زئی کے مطابق انس حقانی مستقبل کی طالبان حکومت میں نمایاں عہدہ رکھ سکتے ہیں۔

افغان امور کے ماہر کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کی یہ خواہش ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ، ہنر مند اور دیگر قابل افراد کو افغانستان میں رہنے پر قائل کر سکیں۔ کیوں کہ جنگی فتوحات اور حکومت سازی میں بہت فرق ہوتا ہے۔

XS
SM
MD
LG