افغان طالبان نے مغربی میڈیا میں شائع ہونے والی ایسی رپورٹس کی تردید کی ہے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ افغانستان شدّت پسند تنظیم داعش کے بیرون ملک حملوں کی منصوبہ بندی کا مرکز اور رابطہ کاری کا گڑھ بننے جا رہا ہے۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک بیان میں ان رپورٹس کو "جعلی" اور طالبان حکومت کے خلاف "پروپیگنڈا" قرار دیا ہے۔
ملک کی حکومت کنٹرول کرنے والے گروپ کا کہنا تھا کہ افغانستان ایک پرامن ملک ہے اور عید الفطر اس کی تازہ اور بہترین مثال ہے جس کے دوران پورے ملک میں سیکیورٹی سے متعلق کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔
ترجمان کے مطابق طالبان کا "پورے ملک پر کنٹرول ہے اور داعش جیسے باغی گروہ کے خاتمے کے لیے تیزی سے کارروائیاں جاری ہیں۔"
طالبان کی جانب سے یہ بیان حال ہی میں امریکی اخبار"دی واشنگٹن پوسٹ" میں شائع ہونے والی اس خبر کے بعد آیا ہے جس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ڈس کورڈ' پر امریکہ کے محکمۂ دفاع پینٹاگان کی لیک ہونے والی مبینہ خفیہ دستاویزات کے حوالے سے یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ افغانستان میں فعال داعش شدت پسند تنطیم یورپ اور ایشیا کے مختلف ممالک میں حملوں کی منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہے اور وہ امریکہ کو نشانہ بنانے کا بھی ارادہ رکھتی ہے۔
ان دستاویزات میں رپورٹ کہتی ہے کہ امریکہ کے اداروں کے پاس موجود خفیہ اطلاعات کے مطابق داعش مختلف ممالک کے سفارت خانوں پر حملوں، مسیحی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے، کاروباری مراکز میں دھماکوں اور قطر میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ میں تخریب کاری کرنا چاہتی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پینٹاگان کے پاس گزشتہ برس دسمبر تک کی معلومات کے مطابق داعش کی قیادت افغانستان میں بیٹھ کر لگ بھگ نو حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی تھی جب کہ فروری تک 15 حملوں کی پلاننگ کی رپورٹس موصول ہو رہی تھیں۔ تاہم اس رپورٹ کے بارے میں امریکی حکام کی جانب سے ابھی تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
’حقائق دعوؤں سے مختلف ہیں‘
دوسری جانب مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان افغانستان میں داعش کے وجود سے انکاری ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پشاور یونیورسٹی میں شعبہ ذرائع ابلاغ عامہ سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر سید عرفان اشرف کا کہنا ہے افغانستان میں بڑی سطح پر داعش کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
تاہم طالبان بار بار داعش کی کمر توڑنے جیسے بیان جاری کر کے ان خدشات کو زائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ کیوں کہ اقتدار پر قابض طالبان نہیں چاہتے کہ داعش ان کے یا تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کے لیے کوئی متبادل آپشن بنے۔
سید عرفان اشرف کے مطابق وقتاً فوقتاً داعش کے جنگجو نہ صرف افغانستان کے اندر بلکہ پاکستان اور افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے ازبکستان میں بھی حملے کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی بارہا تنبیہ کے باوجود شدت پسند تنظیم داعش افغانستا ن کے پڑوسی ملک پاکستان کے مختلف علاقوں میں حملے کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
یاد رہے کہ داعش نے افغانستان میں مساجد، غیر ملکی شہریوں اور سرکاری تنصیبات کے ساتھ ساتھ اہم طالبان شخصیات کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
گزشتہ سال وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ملک کے اندر داعش کی موجودگی کو مکمل طور پر رد نہیں کیا تھا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ داعش کے خلاف افغان طالبان کی کارروائیوں میں اس کے 600 سے زائد جنگجو ہلاک اور 12 سو گرفتار کیے جا چکے تھے اور دعویٰ کیا تھا کہ افغانستان میں داعش کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
مغربی میڈیا اور افغان طالبان کے یہ متضاد دعوے ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب یکم مئی کو دوحہ میں اقوامِ متحدہ کے زیر نگرانی عالمی برادری کے افغانستان کے لیے مقرر کردہ خصوصی ایلچیوں کی کانفرنس منعقد ہونے جا رہی ہے۔
اس کانفرنس میں متوقع طور پر افغانستان کی علاقائی صورتِ حال، انسانی اور خواتین کے حقوق کے علاوہ افغانستان سے متعلق مستقبل کی حکمتِ عملی جیسے نکات زیرِ بحث آئیں گے۔
’داعش کی کارروائیوں کا دائرہ پھیل سکتا ہے‘
گزشتہ حکومت میں افغانستان کے مختلف صوبوں میں تعینات سابق گورنر محمد حلیم فدائی کا کہنا ہے کہ افغانستان کی سرزمین داعش کے جنگجوؤں کے لیے ساز گارہے۔
داعش سے متعلق رپورٹس کی طالبان کی جانب سے تردید پر ان کا کہنا تھا کہ حقیقت کو جھٹلانا طالبان کی پرانی پالیسی کا حصہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے موقع پر بھی طالبان القائدہ پر الزام کے مخالف تھے۔
ان کے بقول یہ وہ تمام لوگ ہیں جو مختلف نظریات کے حامی ہیں۔ انہوں نے ایک جمہوری نظام کے خلاف 20 سال تک مشترکہ جنگ لڑی ہے۔
محمد حلیم فدائی کا کہنا ہے کہ داعش میں وہی لوگ شامل ہیں جو یا تو پہلے کبھی طالبان کے ساتھی تھے یا پھر نظریاتی طور پر طالبان کے ہم خیال گروپس میں شامل رہے۔ اس لیے افغانستان کی سرزمین ان افراد کے لیے کوئی نئی نہیں ہے اور ان کے خود کش حملوں اور ٹریننگ کی تکنیک طالبان سے مختلف نہیں ہے۔
سابق گورنر کے مطابق دہشت گردی کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں بلکہ یہ نظریاتی جنگ ہوتی ہے۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ داعش کی کارروائیاں افغانستان کے اندر ہونے کے ساتھ ساتھ قریبی ممالک اور بالآخر یورپ اور دیگر ممالک تک پھیل سکتی ہیں۔
ان کے مطابق پاکستان، ایران سمیت افغانستان کے پڑوسیوں اور دیگر ممالک اس لیے بھی افغانستان میں طالبان حکومت کو رسمی طور پر تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کیوں کہ انھیں داعش کی سرگرمیوں سے خطرہ ہے اور وہ بارہا طالبان پر اس شدت پسند گروہ کے خاتمے کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔
واضح رہے کہ داعش 2013 میں بننے والا ایک انتہا پسند گروپ ہے، جس نے شام اور عراق کے ایک بڑے رقبے پر قبضہ کرکے اپنی خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ البتہ 2019 میں امریکہ کی ایک کارروائی میں اس کے سربراہ اور خلیفہ ابوبکر البغدادی ہلاک ہو گئے تھے۔
گزشتہ برسوں میں کئی ممالک میں داعش نے ہلاکت خیز حملے کیے البتہ اس کے سربراہ کی موت کے بعد اس کے حملوں کی صلاحیت میں کمی آئی ہے۔ تاہم اب بھی اسے خطرناک تنظیم تصور کیا جاتا ہے جب کہ افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اس نے کابل سمیت کئی مقامات پر حملے کیے ہیں۔
طالبان کا یہ بھی دعویٰ رہا ہے کہ اس نے داعش کے خاتمے کے لیے مؤثر کارروائیاں کی ہیں۔ تاہم داعش کا مکمل خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔