افغانستان کے طالبان حکام نے منگل کو کہا ہے کہ اٹلی کے جنوبی ساحل کے قریب ایک کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچوں سمیت 80 افغان شہری بھی شامل ہیں۔
ادھر اٹلی میں امدادی کارکنوں نے اب تک 65 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جب کہ ان کا کہنا ہے کہ 80 افراد کو بچا لیا گیا ہے۔تاہم امدادی کاررائیوں کی نگرانی کرنے والے حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے کہا ہے کہ انتہائی افسوس کے ساتھ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اٹلی کے جنوبی سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والوں میں 80 افغان مہاجرین بھی تھے جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ ترکی سے لکڑی کی ایک کشتی میں اٹلی جا رہے تھے۔
ترجمان بلخی نے اپنے بیان میں طالبان حکومت کی جانب سے ہلاک ہونےوالو ں کی مغفرت اور متاثرین کے لواحقین کے لیے صبر کی دعا کرتے ہوئے اپنے تمام شہریوں کو ایک بار پھر تاکید کی کہ وہ غیر قانونی طریقے سے بیرونی ملکوں میں جانے سے گریز کریں۔
پاکستان نے بھی منگل کو تصدیق کی کہ اس حادثے میں اس کے دو شہری ہلاک ہوئے جب کہ 17 کو بچا لیا گیا۔
اس بدقسمت کشتی کے حادثے میں زندہ بچ جانے والوں کا کہنا ہے کہ ان کے اندازے کے مطابق کشتی پر 150 سے 200 تک افراد سوا تھے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان اور افغانستان سے تھا۔
اطالوی حکام نے تین افراد کو، جن میں سے ایک ترکیہ کا شہری اور دو پاکستانی شہری ہیں، انسانی اسمگلنگ کے شبے میں گرفتار کیا ہے۔
سن 2022 میں ایک لاکھ پانچ ہزار سے زیادہ تارکین وطن سمندر کے راستے اٹلی پہنچے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا سے تھا۔
اٹلی نے یورپی یونین کے دیگر ممالک سے کہا ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور کچھ تارکین وطن کو قبول کریں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ خطرناک سمندری راستے سے اٹلی پہنچنے والے زیادہ تر غیر قانونی تارکین وطن اٹلی رکنا نہیں چاہتے ۔ان کی کوشش یورپ کے کسی اور ملک میں جانے پر مرکوز ہوتی ہے جہاں انہیں روزگار مل سکے، یا وہ وہاں جا کر اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ شامل ہو سکیں۔
(اس خبر کی کچھ تفصیلات پاکستان سے وی او اے کے ایاز گل اور ایسوسی ایٹڈ پریس سے حاصل ہوئی ہیں)