افغانستان میں طالبان جنگجوؤں نے ایک اہم ضلع پر حملہ کر کے وہاں درجنوں افراد کو ہلاک کر دیا ہے اور حکام خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ شدت پسند یہاں قابض ہو سکتے ہیں۔
مشرقی صوبہ غزنی میں پولیس کے نائب سربراہ اسد اللہ صافی کے مطابق صوبائی انتظامیہ کا ضلع اجرستان کی پولیس سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے " اور اگر ہنگامی طور پر مرکزی حکومت کی طرف سے مدد نہ پہنچی تو اس صوبے کا کنٹرول ختم ہو سکتا ہے۔"
حکام کے مطابق رواں ہفتے طالبان جنگجوؤں نے یہاں حملہ کیا اور متعدد گھروں کو نذر آتش کرنے کے علاوہ لگ بھگ ایک سو افراد کو ہلاک کر دیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق انھوں نے جمعرات کو دیر گئے مقامی اور نیشنل پولیس اہلکاروں کے خاندان کے تقریباً 12 افراد کے سر قلم کر دیے۔
صافی کا کہنا تھا کہ طالبان نے ایک ایسی جگہ کار بم دھماکا بھی کیا جہاں لگ بھگ 40 پولیس اہلکار موجود تھے۔
صوبہ غزنی دارالحکومت کابل سے جنوب مغرب میں واقع ہے اور کابل کو شمالی افغانستان سے ملانے والی اہم شاہراہ بھی یہیں سے گزرتی ہے۔
اسداللہ صافی کا کہنا تھا کہ جمعہ کو بھی اجرستان میں لڑائی میں جاری تھی۔
نائب صوبائی گورنر احمد اللہ احمدی کے حوالے سے خبر رساں ایجنسی "رائٹرز" نے بتایا کہ لگ بھگ سات سو جنگجوؤں نے پانچ روز قبل یہاں حملہ کیا تھا اور اب تک ایک سو افراد کو یہ لوگ ہلاک کر چکے ہیں۔
طالبان کی پرتشدد کارروائیوں میں حالیہ مہینوں میں اضافہ دیکھا جاچکا ہے لیکن اجرستان میں ہونے والے اس حملے کو ملک کے نامزد صدر اشرف غنی کی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے جو جلد ہی اپنا منصب سنبھالنے والے ہیں۔
ایک منصوبے کے تحت افغانستان سے تمام غیر ملکی افواج 13 سالہ جنگ کے بعد رواں برس کے اختتام تک اپنے وطن واپس چلی جائیں گی۔
امریکہ نے افغانستان کے ساتھ ایک دوطرفہ سلامتی کا معاہدہ تجویز کر رکھا ہے جس کے تحت بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد بھی لگ بھگ نو ہزار امریکی فوجی یہاں رہ کر مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ان کی معاونت کریں گے۔
یہ معاہدہ نئے افغان صدر کے دستخط کے بعد قابل عمل ہو سکے گا۔