ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ مستقبل کے افغانستان میں طالبان کا کردار ضرور ہونا چاہیے۔ لیکن اسی کے ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس سخت گیر اسلامی گروپ کو بالادستی حاصل نہیں ہونی چاہیے۔
جواد ظریف نے نئی دہلی میں انڈیا ایران بزنس فورم میں شرکت کے موقع پر ایک نیوز چینل این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ساتھ ایران کا انٹیلی جینس رابطہ ہے۔ کیونکہ طالبان کے زیر کنٹرول افغان ایران سرحدی علاقے میں سلامتی کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ مستقبل کا افعانستان طالبان کے کسی کردار کے بغیر ناممکن ہے۔ لیکن ہمارا یہ بھی خیال ہے کہ طالبان کو بالادستی کا رول نہیں ملنا چاہیے۔ یہ فیصلہ کرنا افغانستان کا کام ہے کہ وہاں طالبان کا کیا کردار ہو۔ لیکن ہمسایہ ملکوں میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ طالبان کو بالادستی حاصل ہو۔ کیونکہ یہ خطے کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس پر تقریباً اتفاق رائے ہے“۔
ایک سینیر تجزیہ کار قمر آغا نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ اب طالبان سے مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نہ تو امریکہ اور نہ ہی اتحادی افواج طالبان کو دبانے میں کامیاب ہوئیں۔ لہٰذا افغانستان کے سامنے دو راستے ہیں۔ یا تو وہ لڑائی کرے یا بات چیت کرے۔ اس لیے سب کو سوچنا پڑ رہا ہے کہ طالبان سے بات کریں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اب امریکہ نے بات چیت کا آغاز کیا ہے تو باقی ملکوں کے لیے بھی بات کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ بھارت کی ہمیشہ سے کوشش رہی کہ ہے کہ طالبان کو دبایا جائے اور اس کا خیال تھا کہ اتحادی افواج اس میں کامیاب ہو جائیں گی۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔
لیکن اسی کے ساتھ قمر آغا یہ بھی کہتے ہیں کہ انھیں نہیں لگتا کہ طالبان بات چیت سے مان جائیں گے۔
دریں اثنا افغانستان کے دفتر خارجہ نے ایرانی وزیر خارجہ کے بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ اس نے مستقبل کی حکومت میں طالبان کی شمولیت کو تمام سفارتی آداب کے منافی قرار دیا اور جواد ظریف کے بیان کو افغانستان کے اندرونی امور میں ایران کی واضح مداخلت بتایا۔
افغانستان کے نائب وزیر خارجہ ادریس زمان نے ٹویٹ میں کہا کہ ریاست سے ریاست کے تعلقات سے الگ ہٹ کر طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات دونوں ملکوں کے رشتوں کو کمزور کیں گے۔