رسائی کے لنکس

پاکستانی فورسز پر حملوں میں ایک بار پھر اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟


پاکستان میں حکام نے تصدیق کی ہے کہ اتوار اور پیر کی درمیانی رات خیبر پختون خواہ صوبے کے شہر بنوں میں ایک فوجی کانوائے پر دہشت گردوں کے حملے میں دو سویلین ہلاک ہوئے ہیں۔ پاکستانی فوج کے میڈیا ونگ آئی ایس پی آر کے مطابق اتوار کی رات بنوں شہر میں ہونے والے حملے میں سات شہری اور تین فوجی زخمی بھی ہوئے۔

وی او اے کے نمائندے ایاز گل کی رپورٹ کے مطابق فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک موٹر سائیکل سوار خود کش حملہ آور نے خود کو فوجی قافلے کے قریب پہنچ کر دھماکے سے اڑا لیا۔ بیان کے مطابق حملے کے بعد علاقے میں مزید ممکنہ دہشت گردوں کی تلاش میں آپریشن جاری ہے ۔

خود کش بمبار کو ایک افغان شہری کے طور پر شناخت کیا گیا ہے ، جس کا تعلق ریاست مخالف حافظ گل بہادر جنگجو گروپ سے ہے، جو افغانستان میں قابض طالبان کا قریبی اتحادی سمجھا جاتا ہے۔

گزشتہ رات آئی ایس پی آر سے جاری ہونے والے ایک دوسرے بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی سرحد کے قریب جنوبی وزیرستان میں خفیہ معلومات کی بنا پر مارے گئے ایک چھاپے میں آٹھ دہشت گرد مارے گئے ہیں۔

اتوار کے چھاپے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ، جو پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر متعدد حملوں میں ملوث رہے ہیں۔

پاکستان کہتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور دیگر مفرور جنگجووں نے جن کے افغانستان میں ٹھکانے ہیں، دو سال قبل افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد پاکستان کے اندر اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔

حکام کے مطابق رواں سال کے دوران پاکستان کے اندر ہونے والے سولہ خود کش حملے افغان جنگجووں نے تحریک طالبان پاکستان کے تعاون سے کئے، جنہیں پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے۔

دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں جان دینے والے نائیک خوشدل خان

"میرا بیٹا ہر روز کال کرکے مجھ سمیت سب گھر والوں کی خیریت معلوم کرتا تھا۔ اُس دن نہ جانے کیوں صبح سویرے سے ہی مجھے بے چینی نے گھیر لیا تھا۔ عجیب سی خوف زدہ کرنے والی بے سکونی محسوس ہو رہی تھی۔ اچانک دن کے کسی پہر میرے گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ آپ کا بیٹا دورانِ آپریشن زخمی ہوا ہے جس کے بعد میری تشویش شدید پریشانی میں بدل گئی۔"

یہ کہنا ہے مشال خان کا، جن کے بیٹے نائیک خوش دل خان چھ نومبرکو ضلع خیبر کی تحصیل تیراہ میں دہشت گردوں کے خلاف کیے جانے والے آپریشن میں مارے گئے تھے۔

خفیہ اطلاعات پر مبنی اس آپریشن کی قیادت لیفٹننٹ کرنل محمد حسن حیدر کر رہے تھے اور وہ خود بھی اس آپریشن میں نشانہ بن گئے تھے۔ چھ نومبر کو اس حملے میں پاکستان کی فوج کے چار اہلکار مارے گئے تھے۔

اکتیس سالہ نائیک خوشدل خان کے والد مشال خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خوش دل ان کا بڑا بیٹا تھا اور گھر کی مالی ضروریات پورا کرنا اس کی ہی ذمے داری تھی۔

خوش دل خان کا تعلق خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع لکی مروت سے تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ خوش دل کی یادیں دل و دماغ میں بسیرا کیے ہوئے ہیں اور اب ان کے آٹھ سالہ بیٹے اور دو چھوٹی بیٹیوں کے لیے فکر مند ہیں۔

پاکستانی فوج پر حملوں میں کون ملوث ہے؟

پاکستان میں حکام کا مؤقف رہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی میں غیر قانونی تارکینِ وطن ملوث رہے ہیں۔ اس لیے یکم نومبر کو قانونی دستاویزات نہ رکھنے والے تارکینِ وطن کو پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ پاکستان سے واپس جانے والےتارکینِ وطن میں بڑی تعداد میں افغانستان کے شہری ہیں۔

اب تک چار لاکھ سے زائد افغان اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔اسی عرصے کے دوران پاکستان میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کے مختلف حصوں میں گزشتہ ایک ماہ کے دوران 30 سے زائد فوجیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

کیا بے روزگاری نوجوانوں کو دہشت گردوں کا آلہ کار بنا سکتی ہے؟

بعض مبصرین کے مطابق ایسے حالات میں دہشت گردوں کے لیے بے روزگار نوجوانوں کو اپنی جانب مبذول کرانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔

پشاور یونیورسٹی کے شعبۂ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ پروفیسر حسین شہید سہروردی کا کہنا ہے کہ جب بڑی تعداد میں بے روزگار نوجوان پاکستان سے افغانستان جائیں گے تو لازمی بات ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں لگ سکتے ہیں جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اس کے بعد وہ نہ صرف اپنے ملک بلکہ دوسرے خطوں کے لیے بھی نقصان کا باعث بن سکتے ہیں۔

ملک میں بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی اور سیکیورٹی کی ابتر صورتِ حال کے پیشِ نظر حکومتِ پاکستان نے حالیہ دنوں میں ایسے تمام غیرملکیوں کو نکالنے کا اعلان کیا تھا جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں۔

پاکستان کی اس پالیسی پر عالمی اداروں کے علاوہ ملک کے اندر بھی خاصی تنقید کی جا رہی ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے پروفیسر حسین شہید سہروردی نے مزید بتایا کہ افغان پناہ گزینوں کو روزگار اور چھت فراہم کرنا افغان طالبان کی ذمے داری ہے نہ کہ حکومتِ پاکستان کی۔

ان کے مطابق پاکستان کی جانب سے یہ فیصلہ اچانک سامنے نہیں آیا بلکہ اس سے قبل بھی سابق صدر حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کے سامنے اس دیرینہ مسئلے کو بارہا اٹھایا گیا۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا اور نتیجتاً پاکستان کو یہ سخت اقدام کرنا پڑا۔

گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے واضح کیا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 60 فی صد جب کہ خودکش حملوں میں 500 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پچھلے دو برس کے دوران 2200 سے زائد پاکستانی شہریوں کی جانیں جا چکی ہیں جس کے ذمے دار تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے دہشت گرد ہیں جو افغانستان کی سر زمین استعمال کرکے پاکستان کے اندر حملے کرتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستانی قیادت کافی عرصے سے کبھی جارحانہ تو کبھی دوستانہ انداز میں افغان قیادت کو ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے حملوں کی نشاندہی کرا رہی ہے۔ لیکن دوسری جانب سے مکمل تعاون کا فقدان واضح نظر آ رہا ہے۔

کیا ٹی ٹی پی کے لئےافغان طالبان کے موقف میں تبدیلی آئے گی؟

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حکومت ملک کے اندر ٹی ٹی پی کے خاتمے کے لیے مکمل طور پر سرگرم ہے لیکن جب تک ٹی ٹی پی کی قیادت کو افغانستان میں پشت پناہی حاصل رہے گی تو معاملات جوں کے توں ہی رہیں گے۔

ان کے مطابق افغان طالبان کے لیے بھی ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو ملک سےنکالنا آسان کام نہیں ہوگا۔

صحافی سمیع یوسف زئی کے مطابق اگرچہ طالبان کے کچھ سرکردہ رہنما چاہتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول کے مطابق استوار رہیں تاہم دوسری جانب طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ بذات خود ٹی ٹی پی کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ان کے خیال میں ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے سے طالبان کے اندر کافی پیچیدگیاں ابھر کر سامنے آ سکتی ہیں۔

ان کے بقول ، افغان طالبان نے 30 لاکھ افغان شہریوں کی پاکستان سے بے دخلی کے بجائے ٹی ٹی پی کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا جس سے آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان خلیج واضح طور پر بڑھنے کا اشارہ دیتی ہے۔

پاکستان کے مختلف حلقوں کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خاتمے کے لیے افغانستان کے اندر کارروائی کے حوالے سے بھی مختلف بیانات سامنے آئے ہیں۔ کنڑ اور خوست میں بھی ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تاہم پاکستانی حکومت نے اس کی باضابطہ طور پر ذمے داری کبھی بھی قبول نہیں کی۔

افغان امور کے ماہر کے مطابق بارڈر کراس کرنے کی صورت میں وہاں سے بھی جواب آئے گا۔ ہزاروں خودکش بمبار اور پاکستان کے اندر موجود ٹی ٹی پی کا فعال نیٹ ورک پاکستان کے لیے کسی بھی طور پر بڑے خطرے سے کم نہ ہو گا۔ اسی لیے پاکستان سمیت دیگر پڑوسیوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ افغانستان خطرناک پڑوسی ہے۔ اسی لیے پاکستان کو بہت سوچ سمجھ کر اقدامات کرنے ہوں گے۔

کیا مہاجرین کے انخلاء سے پاکستان محفوظ ہو سکے گا؟

افغانستان کے میڈیا ادارے ’پژواک نیوز‘ کے سینئر ایڈیٹر سید مدثر شاہ کے نزدیک مہاجرین کے انخلا کی پالیسی کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کا عنصر جوں کا توں ہی رہے گا۔

ان کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کی کارروایئوں میں افغان شہریوں کے بجائے ٹی ٹی پی کے جنگجو ہی ملوث نظر آئے ہیں۔

سید مدثر شاہ کے مطابق موسمِ سرما میں اتنے بڑے پیمانے پر انخلا کے باعث سرحد پار صورتِ حال مزید دشواریاں لا سکتی ہے۔ کیوں کہ طالبان حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہے اور افغانستان بہت بڑے انسانی بحران کا شکار ہو سکتا ہے جس کا اثر براہِ راست ایک مرتبہ پھر پاکستان پر آ سکتا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG