واشنگٹن —
امریکی محکمہٴخارجہ کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور اُس سے وابستہ شاخیں اب بھی امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے لیے شدید خطرے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
دہشت گردی کے بارے میں محکمہٴخارجہ کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کی چوٹی کی قیادت نے نیٹ ورک کو دھڑوں میں بانٹنے کا عمل ’تیز‘ کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یمن، شام، عراق، شمال مغربی افریقہ اور صومالیہ میں یہ دھڑے ’زیادہ فعال و خودمختار‘ اور’زیادہ جارحانہ‘ بن کر اُبھرے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران دہشت گردی کا اہم سرپرست بنا ہوا ہے، اوراُسے ان مطالبات کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اُس کے جوہری عزائم پُرامن مقاصد کے لیے ہیں۔
اِس میں کہا گیا ہے کہ 2013ء میں دہشت گردی پر مبنی تشدد کی بنیاد فرقہ وارانہ محرکات تھے، خصوصی طور پر شام، لبنان اور پاکستان میں جہاں ہلاک ہونے والے بنیادی طور پر سویلینز تھے۔
محکمہٴخارجہ کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور اس سے منسلک دھڑوں نے مالی خودمختاری کو مضبوط بنا لیا ہے، جس کے لیے اُن کا دارومدار اغوا برائے تاوان، اور دیگر مجرمانہ سرگرمیاں ہیں، جیسا کہ رقوم اینٹ لینا اور کریڈٹ کارڈ دھوکہ دہی۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ سنی دہشت گرد گروہوں کا مالی اعانت کا ذریعہ مشرق وسطیٰ کے ممالک بنے ہوئے ہیں، خصوصی طور پر شام، جہاں دوسری طرف ایران، حزب اللہ اور دیگر شیعہ میلیشائیں اسد حکومت کو وسیع تر حمایت فراہم کی جاتی ہے۔
رپورٹ میں، دہشت گردی کی جاری سرپرستی کے لیے ایران کے علاوہ، شام، کیوبا اور سوڈان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تشدد پر مبنی انتہا پسند ’اپنے طور پر‘ بھی جرم کی ٹھان لیتے ہیں، جو ایک شدید خطرے کی علامت ہے۔ اِس سلسلے میں، 15 اپریل 2013ء کو بوسٹن میراتھون ریس کی ’فِنش لائن‘ پر ہونے والے حملوں کی طرف دھیان مبذول کرایا گیا ہے، جس واقعے میں تین افراد ہلاک اور اندازاً 264 زخمی ہوئے تھے۔
اِس میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ سال افریقہ میں بھی دہشت گردی کی سطح میں خاصہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ براعظم افریقہ کے لیے صومالیہ میں قائم الشباب ایک شدید خطرہ بن چکی ہے۔
تاہم، اس میں یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ فرانس اور افریقی افواج کی طرف سے کامیاب کوششوں کےنتیجے میں، القاعدہ کو اسلامی مغرب کے علاقے سے؛ اور مالی کے شمال میں دیگر انتہا پسند گروہوں کو دھکیل باہر کیا گیا ہے۔
محکمہٴ خارجہ نے غزا کی پٹی اور سنائی میں ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک خاموشی کے بعد، حماس کے شدت پسندوں کی طرف سے اسرائیل پر متعدد راکٹ حملوں کی طرف دھیان مبذول کرایا ہے۔ اِس سے قبل، کُل 74 راکٹ حملے ہوئے تھے، جس کے مقابلے میں صرف 2012ء کے دوران 2557 راکٹ داغے گئے۔ ادھر، اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال جنوبی اسرائیل کے صرف 36 اہداف کو نشانہ بنایا جا سکا۔
دہشت گردی کے بارے میں محکمہٴخارجہ کی سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں القاعدہ کی چوٹی کی قیادت نے نیٹ ورک کو دھڑوں میں بانٹنے کا عمل ’تیز‘ کردیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یمن، شام، عراق، شمال مغربی افریقہ اور صومالیہ میں یہ دھڑے ’زیادہ فعال و خودمختار‘ اور’زیادہ جارحانہ‘ بن کر اُبھرے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران دہشت گردی کا اہم سرپرست بنا ہوا ہے، اوراُسے ان مطالبات کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اُس کے جوہری عزائم پُرامن مقاصد کے لیے ہیں۔
اِس میں کہا گیا ہے کہ 2013ء میں دہشت گردی پر مبنی تشدد کی بنیاد فرقہ وارانہ محرکات تھے، خصوصی طور پر شام، لبنان اور پاکستان میں جہاں ہلاک ہونے والے بنیادی طور پر سویلینز تھے۔
محکمہٴخارجہ کا کہنا ہے کہ القاعدہ اور اس سے منسلک دھڑوں نے مالی خودمختاری کو مضبوط بنا لیا ہے، جس کے لیے اُن کا دارومدار اغوا برائے تاوان، اور دیگر مجرمانہ سرگرمیاں ہیں، جیسا کہ رقوم اینٹ لینا اور کریڈٹ کارڈ دھوکہ دہی۔
اس میں بتایا گیا ہے کہ سنی دہشت گرد گروہوں کا مالی اعانت کا ذریعہ مشرق وسطیٰ کے ممالک بنے ہوئے ہیں، خصوصی طور پر شام، جہاں دوسری طرف ایران، حزب اللہ اور دیگر شیعہ میلیشائیں اسد حکومت کو وسیع تر حمایت فراہم کی جاتی ہے۔
رپورٹ میں، دہشت گردی کی جاری سرپرستی کے لیے ایران کے علاوہ، شام، کیوبا اور سوڈان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تشدد پر مبنی انتہا پسند ’اپنے طور پر‘ بھی جرم کی ٹھان لیتے ہیں، جو ایک شدید خطرے کی علامت ہے۔ اِس سلسلے میں، 15 اپریل 2013ء کو بوسٹن میراتھون ریس کی ’فِنش لائن‘ پر ہونے والے حملوں کی طرف دھیان مبذول کرایا گیا ہے، جس واقعے میں تین افراد ہلاک اور اندازاً 264 زخمی ہوئے تھے۔
اِس میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ سال افریقہ میں بھی دہشت گردی کی سطح میں خاصہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ براعظم افریقہ کے لیے صومالیہ میں قائم الشباب ایک شدید خطرہ بن چکی ہے۔
تاہم، اس میں یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ فرانس اور افریقی افواج کی طرف سے کامیاب کوششوں کےنتیجے میں، القاعدہ کو اسلامی مغرب کے علاقے سے؛ اور مالی کے شمال میں دیگر انتہا پسند گروہوں کو دھکیل باہر کیا گیا ہے۔
محکمہٴ خارجہ نے غزا کی پٹی اور سنائی میں ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک خاموشی کے بعد، حماس کے شدت پسندوں کی طرف سے اسرائیل پر متعدد راکٹ حملوں کی طرف دھیان مبذول کرایا ہے۔ اِس سے قبل، کُل 74 راکٹ حملے ہوئے تھے، جس کے مقابلے میں صرف 2012ء کے دوران 2557 راکٹ داغے گئے۔ ادھر، اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال جنوبی اسرائیل کے صرف 36 اہداف کو نشانہ بنایا جا سکا۔