رسائی کے لنکس

لاہور دھماکہ دہشت گرد تنظیموں اور مقامی نیٹ ورک نے کیا: وزیرِ اعلیٰ پنجاب


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے سب سے بڑی آبادی والے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے دعوی کیا ہے کہ لاہور شہر میں ہونے والے دھماکے میں ملک دشمن ایجنسیاں ملوث ہیں اور دھماکے کی منصوبہ بندی دہشت گرد تنظیموں نے مقامی نیٹ ورک کے ساتھ مل کر کی۔

وزیراعلٰی پنجاب نے دعوی کیا ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حملے میں ملوث تمام مبینہ دہشت گردوں اور سہولت کاروں کو گرفتار کر لیا ہے۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عثمان بزدار نے کہا کہ رواں ماہ لاہور میں ہونے والے دھماکے میں ایک ملک دشمن ایجنسی براہ راست ملوث ہے۔ جس نےمقامی نیٹ ورک کو تمام مالی معاونت اور سہولت فراہم کیں۔

یاد رہے کہ لاہور کے علاقے جوہر ٹاون میں گزشتہ ہفتے ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور 24 زخمی ہو گئے تھے۔ دھماکے کی جگہ سے چند گز کے فاصلے پر کالعدم تنظیم جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید کی رہائش گاہ بتائی جاتی ہے۔

وزیر اعلٰی نے کہا کہ دھماکے کے بعد ابتدائی 16 گھنٹوں میں محکمہ انسداد دہشت گردی پنجاب نے واقع میں ملوث افراد کا تعین کر کے تحقیقات کا دائره وسیع کر دیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب پولیس نے تمام ہائی پروفائل کیسز کو ٹریس کر لیا ہے۔ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں سے تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی گئی ہے اور اس اس میں ملوث بین الاقوامی و مقامی کرداروں کا تعین بھی کرلیا گیا ہے۔

وزیراعلٰی پنجاب نے کہا کہ امن وامان کو درپیش خطرات کے متعلق خبردار کیا جاتا رہتا ہے لیکن اس واقعہ سے متعلق کوئی تھریٹ نہیں تھی۔

وزیراعلٰی پنجاب کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس انعام غنی کا کہنا تھا کہ دھماکے کے بعد کیس کی تفتیش سے متعلق تمام شواہد اکٹھے کیے اور ان لوگوں تک پہنچے جہاں سے دھماکے میں استعمال ہونے وای گاڑی حاصل کی گئی تھی۔

آئی جی پنجاب نے اِس واقعہ سے متعلق بتایا کہ پولیس کی حراست میں دس کے قریب افراد ہیں۔ جن میں مرد اور خواتین شامل ہیں۔ انعام غنی نے بتایا کہ دھماکے سے متعلق مرکزی ملزم (ماسٹر مائنڈز) کی بھی شناخت ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی اس کیس کی مزید تفتیش کرے گی۔ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ جس میں ملوث کرداروں کی ہسٹری تک بھی پہنچنے کی کوشش کی جائے گی۔

آئی جی پنجاب نے مزید کہا کہ سال بھر سیکیورٹی اداروں کی طرف سے وارننگ اور تھریٹ الرٹ آتی رہتی ہیں اور سی ٹی ڈی ایسی تھریٹ الرٹس پر کام بھی کرتی ہے۔ اُن کے مطابق سی ٹی ڈی پنجاب سال بھر میں ایسی پچیس سے تیس تھریٹ الرٹ پر کام کر کے ایسی کارروائیوں کو روکتی ہے۔

انعام غنی کا کہنا تھا کہ پولیس نے گاڑی کو ناکے پر روکا تھا۔ پولیس کو شک تھا اور اِس کو چیک کیا۔ " اگر ہم ناکے پر ہر گاڑی کے لوگوں کو اتار کر چیک کریں اور جامع تلاشی لیں تو آدھی موٹروے پر گاڑیوں کی لائنیں لگ جائیں گی۔"

ان کے بقول ایسے واقعات ہو جاتے ہیں۔ کبھی کبھار ایک آدھ گاڑی نکل جاتی ہے۔ اِس موقع پر انعام غنی نے امید ظاہر کی کہ پولیس اس کیس میں ملوث لوگوں کو سزا دلوائے گی۔

آئی جی پنجاب کے مطابق دھماکہ چونکہ ایک رہائشی علاقے میں کیا گیا تھا جہاں پولیس کے دو ناکے موجود تھے، دہشت گرد تیسرے ناکے تک نہیں جا سکا اور اِس کا ہدف یہی پولیس کے ناکے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے کے اہم کردار جس نے پاکستان میں اس کا سارا انتظام کیا، وہ ان کے پاس گرفتار ہے۔ جس کی مدد سے گاڑی خریدی گئی وہ ہمارے پاس ہے۔ جس نے اس کی مرمت کی، وہ اور اس میں بارودی مواد بھرنے والا بھی ہمارے پاس ہے۔

لاہور: حافظ سعید کی رہائش گاہ کے قریب دھماکہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:00:58 0:00

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آئی جی پنجاب نے کہا کہ انہوں نے ملزم کے فورتھ شیڈول میں شامل ہونے والی خبریں دیکھی ہے لیکن حقیت میں ملزم اِس وقت فورتھ شیڈول میں ہے، نہ کبھی رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی سن 2010 میں چھینی گئی تھی مگر چند مہینوں میں اسے بازیاب کرا لیا گیا تھا۔ آئی جی پولیس کے مطابق گاڑی سپرداری پر تھی۔ جب اسے روکا گیا تھا تو اس کے پاس سپرداری کے کاغذات اور اصل نمبر پلیٹ موجود تھی۔ انٹلی جینس ایجنسیز معاملے کو دیکھ رہی ہیں۔

پولیس اطلاعات کے مطابق سی ٹی ڈی پنجاب لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن دھماکہ خیز مواد سے بھری کاڑی کھڑی کرنے والے مرکزی ملزم کو راولپنڈی سے گرفتار کیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق مبینہ ملزم کا نام عید گل بتایا جاتا ہے۔

سابق آئی جی پولیس شوکت جاوید سمجھتے ہیں کہ سی ڈی پنجاب ایک پیشہ وارانہ فورس بن چکی ہے۔ اُن کے پاس ملزمان کا ڈیٹا بینک بھی ہے اور کسی بھی کیس کو تفتیش کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔ اِسی طرح سی ٹی ڈی کے پاس تمام وہ ضروری سامان ہے جو کسی بھی ایسے کیس کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق آئی جی پولیس نے کہا کہ لاہور دھماکے کے ملزمان کا پکڑا جانا ایک اہم کامیابی ہے۔ اِس کے پیچھے جو بھی ہاتھ ہیں اُنہیں سامنے لانا چاہیے تا کہ پاکستانی عوام کے ساتھ عالمی برادری کو بھی پتا چلے کہ کون لوگ ہیں جو ایسی حرکتیں پاکستان میں کرا رہے ہیں۔

اُن کے خیال میں لاہور دھماکے کا تعلق طالبان کی بجائے کہیں اور نکلے گا۔ شوکت جاوید کا کہنا تھا کہ ایسے کیسوں کو حل کرنے کے لیے سیف سٹی، جیو ٹیگینگ اور جیو فینسنگ کی مدد لی جاتی ہے۔ سی ٹی ڈی کے پاس ایسے تربیت یافتہ افراد ہیں جو اپنی پیشہ وارانہ اور ماہرانہ صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔

سابق آئی جی پنجاب سمجھتے ہیں کہ لاہور دھماکے میں غیر ملکی ہاتھ ملوث ہونے کا شبہ ہمسایہ ملک پر کیا جا سکتا ہے۔

اُن کے مطابق جہاں تک بات ہے اندرونی ہاتھ ملوث ہونے کی تو اِس میں وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جو غیر ملکی ایجنسیوں کے ہاتھوں روپےکی خاطر استعمال ہوتے ہیں۔

جوہر ٹاون جیسے علاقے میں دھماکہ خیز مواد کی گاڑی کا پہنچنا اور سیکیورٹی بریچ کے حوالے سے سابق آئی جی نے دعوی کیا کہ ایسے واقعات دنیا کے کسی بھی شہر میں ہو سکتے ہیں۔

شوکت جاوید سمجھتے ہیں کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے صرف ملزمان کو پکڑ لینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اُنہیں قانون کےمطابق سزا دلوانا بھی زیادہ ضروری ہے۔

XS
SM
MD
LG