امریکہ کی کانگریس کی عمارت پر سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں کے حملے کو ایک سال بیت چکا ہے۔ چھ جنوری 2021 کو کیپٹل ہل پر چڑھائی کرنے والے بہت سے مظاہرین اب سزائیں کاٹ رہے ہیں۔
ان میں سے اکثر قیدی اس روز ہونے والے واقعات سے اب لاتعلقی کرتے ہوئے کیپٹل ہل میں داخلے کو اپنی غلطی قرار دیتے ہیں۔
کیپٹل ہل پر حملہ آور ہونے والے کچھ مظاہرین واقعے کا براہِ راست ذمے دار اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹرمپ کے حامی ان پر بھروسا نہ کریں۔ ان قیدیوں کے مطابق سابق صدر ٹرمپ نے انہیں راہِ راست سے بھٹکایا۔ البتہ کچھ سزا یافتہ افراد اب بھی خود کو درست مانتے ہوئے الزام لگاتے ہیں کہ ان کا سوشل بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے اعداد و شمار کے مطابق کیپٹل ہل پر حملے کے الزام میں 705 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے کم از کم 170 نے اعترافِ جرم کیا ہے۔
ان میں سے 70 افراد کو سزا سنائی جا چکی ہے۔ ایک کیس خارج اور دو کیسز ملزمان کے انتقال کے بعد بند کر دیے گئے ہیں۔ البتہ اب تک کوئی شخص ایسا نہیں جو قصور وار ثابت نہ ہوا ہو۔
ٹرمپ کی حمایت میں کانگریس کی عمارت پر چڑھائی کرنے کے الزام میں سزا پانے والے مظاہرین اس واقعے کو کیسے بیان کرتے ہیں؟ آئیے جانتے ہیں۔
'صدر ٹرمپ پر بھروسا کرنا سب سے بڑی غلطی تھی'
لینرڈ گریپو امریکہ کی ریاست نیو میکسیکو کے رہائشی ہیں۔ وہ اسپیشل فورسز کے ریٹائرڈ اہلکار ہیں۔ کیپٹل ہل پر حملے کے الزام میں انہیں تین ماہ نظر بندی کی سزا سنائی گئی۔ انہوں نے سزا سنانے والے جج کو خط ارسال کیا۔
اس خط میں انہوں نے میں لکھا کہ ’’میں کیپٹل ہل کی عمارت میں کیوں داخل ہوا تھا؟ میرے پاس اس کا کوئی بہتر جواب نہیں ہے۔ میں ہزاروں مرتبہ یہ سوچ چکا ہوں مگر پھر بھی واضح نہیں کہ میں کیوں نہیں جان سکا کہ کیا ہو رہا ہے اور اس کے خلاف کوئی قدم کیوں نہ اٹھا سکا۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ سب کیپٹل ہِل جائیں گے اور پرامن رہنا ہے۔"
ان کا خط میں مزید کہنا تھا کہ یہ پورا تجربہ ایک واہمہ تھا۔ انہوں نے صدر ٹرمپ پر بھروسا کیا اور یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی۔
'ظالم تو وہ خود تھے جو طاقت اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے'
فلوریڈا کے رابرٹ پامر نے بھی اپنے تحریر کردہ خط میں اپنے مؤقف کا اظہار کیا ہے۔
پامر نے آگ بجھانے کا آلہ اچھالا تھا اور پولیس اہلکاروں پر بھی حملہ کیا تھا۔ انہیں پانچ برس سے زائد قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
چھ جنوری 2021 کو رونما ہونے والے واقعے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ "مجھے اندازہ ہوا ہے کہ ہم یعنی ٹرمپ کے حامیوں سے انہوں نے جھوٹ بولا جن کے پاس اس وقت بڑی طاقت تھی۔ یعنی اس وقت کے امریکی صدر اور ان کے اشاروں پر چلنے والوں نے۔"
ان کا کہنا تھا کہ وہ انتخابی دھاندلی کا ایک جھوٹا بیانیہ اگلتے رہے اور بتاتے رہے کہ کیسے اس ظلم کے خلاف کھڑے ہونا ان کی ذمے داری ہے۔ انہیں بعد میں اندازہ ہوا کہ ظالم تو وہ خود تھے جو ہر قیمت پر طاقت اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔
'میڈیا پر جھوٹے دعوے کیے گئے'
گلین ویس لی کروئے امریکہ کی ریاست کولوراڈو کے رہائشی ہیں۔
کیپٹل ہل پر چڑھائی کرنے والے ہجوم میں شامل ہونے پر انہیں تین ماہ گھر پر قید رہنے کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان کی وکیل کیرا اینی ویسٹ نے مقدمے میں لکھا کہ "میڈیا پر آکر جھوٹے دعوے کیے گئے، خود صدر کی جانب سے بھی کہ انتخابی سسٹم کرپٹ ہو چکا ہے اور الیکشن کی ساکھ پر سوالات اٹھ گئے ہیں۔ مسٹر کروئے مانتے ہیں کہ انہوں نے انٹرنیٹ پر یہ پڑھا اور خود صدر سے بھی سنا کہ الیکشن چوری کر لیے گئے ہیں۔"
'میں جیل نہیں جا سکتی' سے 60 دن کی قید تک
جینا ریان ریاست ٹیکساس کی رہائشی ہیں۔ وہ بھی کیپٹل ہل میں داخل ہونے والوں میں شامل تھیں۔
جینا نے ایک آن لائن پوسٹ بھی کی تھی جس میں لکھا تھا کہ "میں جیل نہیں جا سکتی کیوں کہ میرے سنہرے بال اور سفید رنگت ہے۔ میرے پاس بہترین نوکری اور اچھا مستقبل ہے۔"
لیکن ریان کو عدالت نے اس پوسٹ کے بعد 60 دن قید کی سزا سنائی۔
انہوں نے 'این بی سی نیوز' کو رواں ہفتے دیے گئے ایک انٹرویو میں اپنی سزا پر ردعمل میں الزام لگایا کہ انہیں قربانی کا بکرا بنایا گیا بالکل اس طرح جیسے یہودیوں کو جرمنی میں بنایا گیا تھا۔
جینا ریان سمجھتی ہیں کہ انہوں نے چھ جنوری کو جو کچھ کیا اس میں سب کچھ غلط نہیں تھا۔
ریان نے عدالت کو لکھے گئے اپنے خط میں مؤقف اختیار کیا کہ "اگرچہ میں غیر قانونی طریقے سے کیپٹل ہل کی عمارت میں داخل ہونے پر برا محسوس کرتی ہوں البتہ اس دن ہر وہ چیز جو میں نے کی، غلط نہیں تھی۔ اس روز میرے کچھ اقدامات اچھے بھی تھے۔"
انہوں نے کہا کہ وہ انتخابی نتائج کے خلاف احتجاج کے لیے واشنگٹن ڈی سی آئی تھیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان کی آواز سنی جائے۔ ان کے ہتھیار صرف ان کی آواز اور موبائل تھا۔
'میرے قدامت پسندانہ عقائد اب بھی پہلے جیسے ہی ہیں'
امریکی ریاست واشنگٹن کے شہر سیئٹل کے ڈیولن تھامسن نے کیپٹل ہل پر حملے کے روز ایک پولیس افسر پر ڈنڈے برسانے کا اعترافِ جرم کیا تھا۔ انہیں چار برس قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
انہوں نے اپنے خط میں لکھا کہ"میرے قدامت پسندانہ عقائد اب بھی پہلے جیسے ہی ہیں۔ میرا پیغام اپنے ساتھی قدامت پسندوں اور موجودہ انتظامیہ سے اختلاف رکھنے والے کسی بھی امریکی کے لیے یہی ہے کہ ہمیں نظام کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کام جاری رکھنا چاہیے اور چھ جنوری کو ہونے والے ظالمانہ اقدامات کی مذمت کرنی چاہیے۔"