طبی امداد کے ایک بڑے گروپ کا کہنا ہے کہ وہ تھائی لینڈ میں حکومت کے ساتھ جاری اختلافات کے باعث 35 سال بعد ملک میں اپنا کام سمیٹ رہا ہے۔
’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کی طرف سے جمعرات کو جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ غیر اندراج شدہ مہاجرین اور غیر محفوظ آبادی کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ کئی ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات کے باوجود اجازت نہ ملنے کے باعث کیا گیا۔
بیان کے مطابق گروپ کو مجبوراً ساموٹ ساخون اور پاگوڈاس پاس کے علاقوں میں اپنے منصوبے بند کرنا پڑے جہاں 55 ہزار غیر مراعت یافتہ لوگوں کو بنیادی طبی سہولت کی فراہمی کا یہ واحد ذریعہ تھا۔
گروپ کا کہنا ہے کہ اب بھی تقریباً 20 لاکھ غیر اندراج شدہ مہاجرین یہاں موجود ہیں۔ تھائی لینڈ میں اپنے منصوبے مکمل طور پر ختم کرنے کے باوجود ’’ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘‘ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ کسی ہنگامی صورت حال میں ضرورت پڑنے پر ’چوکس اور تیار‘ رہے گا۔
گروپ کا کہنا ہے کہ اس نے 1976ء میں تھائی لینڈ میں اپنا کام شروع کیا تھا جب اس نے کمبوڈیا سے کھیمرروچ کے دورحکومت میں نقل مکانی کرکے آنے والوں کو طبی سہولتیں فراہم کی تھیں۔ بعد ازاں برما کے مہاجرین کو مدد فراہم کرنے کے علاوہ اس ہی کی مدد سے تھائی لینڈ ایڈز میں مبتلا افراد کے علاج کے لیے مفت انٹی ریٹرو وائرل طریقہ استعمال کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن سکا۔