کیوبا میں دوستوں کو گفتگو کے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرنا پڑتی ہے۔ اس کا تعلق آداب سے نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ اور جدید مواصلات کی دیگر اقسام اب بھی کیوبا میں ایک آسائش ہیں۔
اگرچہ ہر کسی کے پاس سمارٹ فون ہے مگر انہیں صرف ٹیلی فون کرنے اور سننے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان پر نہ سماجی رابطے کی ویب سائیٹس استعمال کی جاتی ہیں، نہ ٹیکسٹ پیغامات بھیجھے جاتے ہیں اور نہ ہی ای میل۔
موبائل پر انٹرنیٹ رسائی چند عوامی پارکوں تک محدود ہے۔ اپنے گھر میں انٹرنیٹ تک رسائی اب بھی ایک خواب ہے۔ ایک چھوٹے طبقۂ اشرافیہ کے علاوہ جن میں کئی سرکاری افسر ہیں، کسی کے گھر میں انٹرنیٹ نہیں۔
انٹرنیٹ کنکشن حاصل کرنے کے لیے سینٹر ایجنٹ ٹیلی کمیونیکشنز نامی چھوٹی دکانوں پر جانا پڑتا ہے۔ وہاں سرکاری اجازت رکھنے والے دکاندار ماچس کے سائز کے کارڈ بیچتے ہیں جن پر انٹرنیٹ پاس ورڈ لکھا ہوتا ہے۔
ایک کارڈ کی قیمت 2.5 پیسو یعنی لگ بھگ 90 سینٹ ہے۔
اس کارڈ پر درج پاس ورڈ استعمال کر کے لوگ پارکوں یا مخصوص ہوٹلوں میں انٹرنیٹ استعمال کر سکتے ہیں۔ ہوانا میں پارک بیچ ٹاؤن شپ کے علاقے میں ہر ماہ سینکڑوں کیوبن انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے دن اور رات میں کسی بھی وقت آ سکتے ہیں۔
حال ہی میں پچاس افراد وہاں جمع تھے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل فون تھا اور وہ بیرون ملک اپنے دوست احباب سے بات کر رہے تھے یا سماجی رابطے کی ویب سائٹس استمال کر رہے تھے۔
کیوبا سے صرف ایک ایپلیکشن ایمو سے وڈیو کال کی جا سکتی ہے وڈیو کالز کے لیے دیگر ایپلیکشن کا استعمال ممنوع ہے۔
اگرچہ یہاں انٹرنیٹ رسائی دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کی نسبت بہت کم ہے مگر نیو یارک سے یہاں آئے سوکی جان کا کہنا ہے کہ یہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ سوکی رقص کے استاد ہیں اور کئی مرتبہ کیوبا میں کام کے سلسلے میں آ چکے ہیں۔
’’میں ڈیڑھ سال پہلے بھی یہاں آیا تھا اور انٹرنیٹ کے بارے میں اس وقت سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ ایسی کوئی چیز یہاں موجود نہیں تھی۔ جب سے صدر اوباما اور راؤل کاسترو ایک دوسرے سے مذاکرات کر رہے ہیں تب سے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ پارکوں میں انٹرنیٹ سے کیوبا کے عوام باقی دنیا سے آشنا ہو رہے ہیں اور جان رہے ہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔‘‘
سوکی جان بھی انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے پارک جاتے ہیں اور ایک دکاندار سے انہوں نے پچاس سینٹ میں انٹرنیٹ کارڈ خریدا تاکہ سرکاری وائی فائی استعمال کر سکیں۔
جیزئیل ہرنانڈس ان بہت سے معمر افراد میں سے ایک ہیں جو امریکہ میں مقیم اپنے رشتہ داروں سے بات چیت کے لیے یہاں آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی اور نواسی سے میامی میں بات چیت کی۔
’’آپ نے دیکھا کہ میں کیسے اپنی نواسی سے بات کر رہی تھی؟ اگر ہر گھر میں انٹرنیٹ ہو تو بہت ہی اچھا ہو گا مگر یہاں انٹرنیٹ ہونا نہ ہونے سے بہتر ہے۔‘‘
ایک گھنٹہ انٹرنیٹ رسائی کے لیے تین ڈالر اب بھی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے کیوبن شہریوں کے لیے بہت مہنگا ہے جن کی ماہانی آمدن صرف تیس ڈالر ہے۔
تاہم سوکی جان کا کہنا ہے کہ محدود انٹرنیٹ رسائی کے کچھ فوائد بھی ہیں۔
’’یہاں لوگ اب بھی ایک دوسرے سے بات چیت کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ وہ اپنے دوستوں کے گھر جاتے ہیں۔ ان کا انسانی تعلق ابھی نہیں ٹوٹا جو ہمارا، خصوصاً نوجوانوں کا ختم ہو چکا ہے۔ اس میں اب بھی ایک کشش ہے۔‘‘
مگر 17 سالہ یاکسن جیسے نوجوانوں کے لیے اصل کشش گھر پر یا موبائل فون پر انٹرنیٹ کنکشن میں ہے۔
’’یہ جیسے خواب پورا ہونے جیسا ہو گا۔‘‘
مگر ابھی یہ خواب پورا ہونا دور ہے۔