پاکستان میں ایک ماہ قبل قائم ہونے والی اتحادی حکومت کو معاشی بحران پر قابو پانے اور عوام کو ریلیف دینے کے دعوؤں پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے دباؤ کا سامنا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اتحادی حکومت نے اگر سخت فیصلے نہیں کیے تو پاکستان مزید مسائل میں گِھر جائے گا لیکن ان فیصلوں کی سیاسی قیمت بھی چکانا پڑے گی۔
اتحادی حکومت تاحال پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کر سکی ہے اور دوسری جانب عوامی ردعمل کے پیشں نظر معیشت کو پٹڑی پر لانے کے لیے درکار سخت فیصلے نہیں کیے جا رہے ہیں۔
سابق وزیرِاعظم عمران خان نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کے بعد جو عوامی رابطہ مہم شروع کی تھی وہ اسے اگلے مرحلے میں لے جانے کی تیاری کررہے ہیں۔ انہوں نے 20 مئی 2022 کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی تاریخ کا اعلان کردیا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ اگلے انتخابات کی تاریخ کے اعلان تک احتجاج جاری رکھیں گے۔
ملک کی موجودہ معاشی صورتِ حال پر حکومت کا موقف ہے کہ انہیں معاشی بحران ورثے میں ملا ہے۔ جس کے باعث ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال اور معیشت کو دیکھتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن نے بھی صلاح مشورے شروع کر دیے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اِس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف متعدد کابینہ اراکین کے ساتھ لندن کے نجی دورے پر گئے تھے جہاں انہوں نے سیاسی اور معاشی صورتِ حال پر نواز شریف سے مشاورت کی تھی۔ لیکن اب یہ سوال گردش میں ہے کہ سابق حکومت کے خلاف عدمِ اعتماد پیش کرنے والی اتحادی جماعتوں کے پاس اقتدار میں آنے کے بعد پیش آنے والے مسائل کے لیے پہلے کوئی مںصوبہ تھا یا نہیں؟
اتحادیوں کی منصوبہ بندی کیا تھی؟
سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کہتے ہیں کہ گزشتہ سال اکتوبر نومبر میں جب موجودہ اتحادی حکومت کی جماعتیں حزبِ اختلاف میں تھیں اور تحریک عدم اعتماد کی تیاری کر رہی تھی تو بطور صحافی وہ ان سے سوال کرتے تھے کہ مارچ اپریل میں عمران خان کو ہٹانے کے بعد نیا بجٹ کیسے تیار کیا جائے گا؟ آئی ایم ایف کی شرائط کیسے پوری کی جائیں گی اور معیشت سے متعلق کیا اقدامات کیے جائیں گے؟
حامد میر کا کہنا ہے کہ اُس وقت کی حزب اختلاف کے مرکزی رہنما آصف زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن معیشت سے متعلق ان کے سوالوں کا یہ جواب دیتے تھے کہ ایک مرتبہ عمران خان کی حکومت ہٹا لیں پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔
ان کاکہنا ہے کہ اُس وقت حزبِ اختلاف کا جواب یہ ہوتا تھا کہ عمران خان، پشاور والے صاحب کے ساتھ مل کر سسٹم کو پٹڑی سے اتارنا چاہتے ہیں اور پاکستان میں 1973 کا پارلیمانی آئین ختم کر کے صدارتی نظام لانے کی تیاری کررہے ہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار صابر شاکرکہتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کچھ چیزوں کو سیاسی طور پر حل کیا جاتا تو اچھا تھا۔ عمران خان کی حکومت کو جن باتوں پر موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا اُس میں معیشت، مہنگائی اور بے روزگاری تھا لیکن اصل میں اُن کے خلاف عدم اعتماد لانے کے اسباب سیاسی تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اصل مقصد صرف عمران خان کو ہٹانا تھا اور کسی کے پاس پاکستان کی معیشت ٹھیک کرنے سمیت دیگر پہلوؤں پر کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔
ان کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اپنے مقاصد ہیں، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اپنے اہداف تھے اور مولانا فضل الرحمٰن کی اپنی الگ منزل تھی۔ اُن کے بقول اِن سب کو اکٹھا کرنے والا کوئی اور تھا جس کو یہ ہدف دیا گیا کہ سب لوگوں نے اکٹھے ہو کر عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا ہے۔ اس کے بعد جو ہوگا دیکھا جائے گا۔
صابر شاکر کے مطابق اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں نئے انتخابات چاہتی تھیں۔ عمران خان نے خود ہی اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے الیکشن کی جانب جانے کا اعلان کر دیا تھا۔ لیکن اس کے بعد کچھ انا کے مسئلے آ گئے اور بعد ازاں کچھ ایسی پراسرار باتیں ہوئیں جس کے بعد یہ سمجھا جانے لگا کہ اگر فوری انتخابات ہوتے ہیں تو عمران خان اس میں کامیاب ہوجائیں گے۔
معیشت یا انتخاب
صابر شاکر کے بقول موجودہ اتحادی حکومت میں پیپلز پارٹی یہ چاہتی ہے کہ معیشت اور مہنگائی کو مسلم لیگ (ن) سنبھالے اور مشکل فیصلےکرے۔ جس سے پنجاب میں ن لیگ کی ساکھ متاثر ہو اور وہ آئندہ انتخابات میں اس سے فائدہ حاصل کرے۔اِسی طرح ن لیگ کا خیال تھا کہ کوئی معاہدہ ہو رہا ہے لیکن انہیں یہ اندازہ ہوا ہے کہ سسٹم ان کے ساتھ پوری طرح تعاون نہیں کررہا اور یہ تاثر مریم صفدر کو پاسپورٹ نہ ملنے جیسے واقعات سے قائم ہوا۔
حامد میر کے بقول جب بھی معیشت دانوں سے بات کی جاتی ہے تو وہ یہ یہی کہتے ہیں کہ صورتِ حال تشویش ناک ہے، لیکن سری لنکا جیسی صورتِ حال نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب موجودہ اتحادی جماعتوں نے عمران خان کو نکالا ہے تو ملک کی صورتِ حال کو ٹھیک کرنا بھی اِنہی کا کام ہے۔ اس وقت وہ کہا کرتے تھے کہ وہ آئین بچانا چاہتے ہیں اور معیشت اُن کی ترجیح نہیں تھی۔ انہوں نے آئین بچانا تھا لیکن معیشت کو نہیں بچا پارہے ہیں۔
سیاسی مبصرین سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں دی گئی سبسڈی ختم کرنے کو موجودہ حکومت کے لیے بھاری پتھر قرار دیتے ہیں۔
معیشت سے متعلق حکومت کو درپیش فیصلہ سازی کے مسائل پر سینئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید کہتے ہیں کہ ایک بڑی سیدھی سی بات ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت سیاسی جماعتوں کی ہے جو اپنا ایک ووٹ بینک رکھی ہیں۔ اس لیے یہ کڑے فیصلے اُسی وقت کر سکتےہیں جب اِنہیں یقین ہو کہ یہ موجودہ بجٹ بھی بنائیں گے اور اُس کا جو ردِ عمل آئے گا اُس کا سامنا کرنے کے بعد یہ اگلا بجٹ بھی بنانے کے قابل ہوں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا اگر اِن سیاسی جماعتوں کو اِس بات کا یقین نہ ہوا تو یہ اب بھی بجٹ کیوں بنائیں اور کیوں بڑے فیصلے کریں اور اپنے ووٹ بینک کا نقصان کریں۔
قبل از وقت انتخابات
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید سمجھتے ہیں کہ موجود اتحادی حکومت اسی وقت انتخابات پر آمادہ ہوگی اگر اُنہیں غیر مقبول فیصلے کرنے پر مجبور کیا جائے گا۔ اُن کا کہنا ہے کہ ووٹ بینک رکھنے والی سیاسی جماعتیں کڑے فیصلے لینے کی بجائے عبوری حکومت سے فیصلے کرائیں اور خود الیکشن میں جائیں۔
نصرت جاوید کی رائے میں عمران خان کی مقبولیت میں یقیناً اضافہ ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اِس مقبولیت کو آئندہ انتخابات میں درست طریقے سے استعمال کر سکیں گے۔ ان کے نزدیک یہ کہنا قبل ازوقت ہو گا کیوں کہ جن سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں نے اُنہیں منصب سے ہٹایا ہے وہ فوراً ہی اُنہیں دوبارہ واپس نہیں آنے دیں گے۔
صابر شاکر سمجھتے ہیں کہ تمام سیاسی کھلاڑی، غیر سیاسی کھلاڑیوں پر انحصار کر رہے تھے۔ سیاسی کھلاڑی یہ چاہتے ہیں کہ غیر سیاسی کھلاڑی اُن کا وزن اٹھائیں۔ جس کا تقاضا بھی کیا گیا ہے کہ عمران خان کو غیر سیاسی کھلاڑی کنٹرول کریں اور اُن کے حق میں بیان دیں۔ جس پر بیان بھی سامنے آیا تھا۔
ان کے مطابق اِس کے باوجود عمران خان مقبولیت کی اس حد کو پہنچے ہیں کہ ٹوئٹر بھی یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے کہ امپورٹڈ حکومت نا منظور کا ہیش ٹیگ 15 کروڑ مرتبہ استعمال ہوا ہے اور اِس کا رحجان کم نہیں ہو رہا۔ اس کے بعد غیر سیاسی کھلاڑی بھی سیاسی کھلاڑیوں کا وزن اٹھانے کے لیے تیار نہیں اور وہ اِس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غیر سیاسی کھلاڑیوں کے سربراہ پر اِس وقت شدید دباؤ ہے کیوں کہ جو سوچا تھا وہ نہیں ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے سلیکٹرز اور سلیکٹڈ کی گردان ختم ہوئی اُس کے بعد ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بھی بند ہوگیا اور موجودہ حکومت کو تو آنے سے قبل ہی ’امپورٹڈ حکومت‘ کا خطاب مل گیا ہے۔
حامد میر سمجھتے ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان موجودہ حکومت کو قبل از وقت الیکشن کے لیے مجبور نہیں کر سکیں گے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ الیکش کمیشن اکتوبر تک الیکشن کرانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
سخت فیصلوں کا وزن کون اٹھائے گا؟
نصرت جاوید سمجھتے ہیں کہ اگر موجودہ حالات میں کڑے فیصلے کیے جاتے ہیں تو سب سے زیادہ نقصان پاکستان مسلم لیگ ن کو ہو گا خاص طور پر صوبہ پنجاب میں اُن کا ووٹ متاثر ہو سکتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ اگر کڑے فیصلوں کے بعد الیکشن ہو جاتے ہیں تو اُس کا فائدہ پاکستان تحریکِ انصاف کو ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایوب خان، جنرل ضیا، پرویز مشرف نے بھی پاکستان کا نظام چلایا تھا۔ ملک کا نظام چلانے کا کوئی نہ کوئی بندوبست ہو جائے گا۔ سیاست دان خواہ کوئی بھی ہو وہ میدان سے نہیں ہٹتے اور اپنے ووٹ بینک پر آنچ نہیں آنے دیتے۔
حامد میر کے بقول پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتِ حال میں کسی بھی سیاسی جماعت کا نقصان کم اور عام آدمی کا زیادہ ہو رہا ہے۔ عام آدمی کو پی ٹی آئی،ن لیگ اور پی پی پی سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ جب عمران خان کی حکومت تھی تب بھی آئی ایم ایف کی شرائط تھیں، پیٹرول مہنگا ہو رہا تھا، مہنگائی بڑھ رہی تھی، بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی۔ موجودہ اتحادی حکومت میں بھی و ہی صورتِ حال ہے۔صرف چہرے تبدیل ہو رہے ہیں اور عام آدمی کے لیے کچھ تبدیل نہیں ہوا ہے۔
’کردار بدل رہے ہیں‘
حامد میر کے بقول اگر عمران خان ملک میں چائنا ماڈل نافذ کر دیتے تو صورتِ حال زیادہ خراب ہوتی۔
اُنہوں نے کہا کہ موجودہ اتحادی حکومت کو کھل کر عوام کو بتایا چاہیے کہ اُنہوں نے عمران خان کو کیوں ہٹایا۔ جو باتیں وہ صحافیوں کو پسِ پردہ بتاتے تھے وہ اَب سب کے سامنے بتانی چاہییں۔
حامد میر سمجھتے ہیں کہ پہلے یوں معلوم ہوتا تھا کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے ترجمان تھے اور اَب ایسا لگتا ہے کہ مریم نواز اسٹیبلشمنٹ کی ترجمانی کررہی ہیں۔ اَب کردار تبدیل ہو گئے ہیں لیکن عام آدمی کے لیے کچھ نہیں بدلا۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کے لیے آئندہ چند دِن اہم ہیں۔ جس میں وہ پی ٹی آئی کے بیانیے کا اثر زائل کرنے کے لیے عام انتخابات کا اعلان کر سکتے ہیں یا پھر ملک میں جاری غیر معمولی معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے اقدامات کا اعلان کریں گے۔
واضح رہے اتحادی حکومت میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری اور پی ڈی ایم کے مرکزی رہنما مولانا فضل الرحمن نے بھی گزشتہ ہفتے کراچی میں مختلف مواقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ الیکشن اصلاحات ہونے تک انتخاب کا اعلان نہیں ہونا چاہیے۔